کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 207
ہمارے اور ان کے درمیان پردہ تھا۔‘‘ (صحیح بخاری :کتاب الغسل باب الغسل بالصاع ونحوہ ،ح251) اس حدیث کو امام مسلم(42؍320،دارالسلام:728)نسائی(الصغری 1؍127ح228) احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المسند،6؍143ح25620)ابونعیم الاصبہانی(المستخرج علی صحیح مسلم 1؍370ض720) ابوعوانہ(المسند المستخرج ج1؍295،296)اور بیہقی رحمہ اللہ (السنن الکبری :1؍195) نے شعبہ(بن الحجاج) کی سند سے مختصراً ومطولاً نحو المعنی بیان کیاہے ۔اس روایت کے مفہوم میں درج ذیل باتیں اہم ہیں: 1۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اس بات پر شدید اختلاف ہوگیا تھا کہ غسل جنابت کرتے وقت عورت اپنے سر کے بال کھولے گی یا نہیں،اور یہ کہ غسل کے لیے کتنا پانی کافی ہے،عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ عورتوں کو حکم دیتے تھے کہ غسل کرتے وقت اپنے سر کے بال کھول کر غسل کریں۔اس پر تعجب کرتے ہوئے امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "يَا عَجَبًا لِابْنِ عَمْرٍو هَذَا يَأْمُرُ النِّسَاءَ إِذَا اغْتَسَلْنَ أَنْ يَنْقُضْنَ رُءُوسَهُنَّ، أَفَلَا يَأْمُرُهُنَّ أَنْ يَحْلِقْنَ رُءُوسَهُنَّ؟" ’’ابن عمرو پر تعجب ہے کہ وہ عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ غسل کرتے وقت اپنے سر کے بال کھول دیں کیا وہ انھیں یہ حکم نہیں دے دیتے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈواہی دیں؟‘‘ (صحیح مسلم:59؍331،دارالسلام:747) 2۔سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے رد کے لیے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عملاً سر پر پانی ڈال کر سمجھایا کہ بال کھولنا ضروری نہیں ہے۔ 3۔محدث ابوعوانہ الاسفرائنی(متوفی 316ھ) نے اس حدیث پر درج ذیل باب باندھا ہے: "باب بيان صفة الأواني التي كان يغتسل منها رسول اللّٰه -صلى اللّٰه عليه وسلم-، وصفة غسل رأسه من الجنابة دون سائر جسده" ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل والے برتنوں کا بیان ،اور غسل جنابت میں ،باقی سارے جسم کو چھوڑ کر(صرف) سردھونے کی صفت کا بیان۔‘‘ (صحیح ابوعوانہ 1؍294) محدث کبیر کی اس تبویب سے معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف سر دھوکر