کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 204
ناجائز سمجھتے ہیں جن میں سے ابو وائل رحمہ اللہ کا قول گزر چکا ہے ۔بعض علماء کے نزدیک حائضہ(اگرحافظہ ہے تو اس) کے لیے قراءت قرآن جائز ہے ورنہ وہ قرآن بھول سکتی ہے۔دیکھئے خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ کی کتاب "قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ" (ص:96)
خلاصہ التحقیق: حائضہ کے لیے تلاوت قرآن جائز نہیں ہے لیکن اگروہ حافظہ یا معلمہ ہو تو حالت اضطرار کی وجہ سے اس کے لیے یہ عمل جائز ہے۔واللہ اعلم۔
3۔جنبی کا مسجد میں داخل ہونا(بغیر شرعی عذر کے) جائز نہیں ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ "
’’پس بے شک میں مسجد کو حائضہ اور جنبی کے لیے حلال قرار نہیں دیتا۔‘‘(سنن ابی داود :232 وسندہ حسن صحیح ابن خزیمہ:1327)
اس حدیث کی راویہ جسرہ بنت دجاجہ کی حدیث قول راجح میں حسن کے درجے سے نہیں گرتی اور افلت بن خلیفہ العامری صدوق ہیں،ان پر جرح مردود ہے۔
ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کی حالت میں مسجد میں ہوتے تو اپنا سرمبارک باہر نکالتے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرے سے ہی آپ کے سر مبارک کی کنگھی کرتی تھیں اور وہ حالت حیض میں ہوتی تھی۔(دیکھئے صحیح البخاری :296)
اس سے بھی جسرہ بنت دجاجہ کی حدیث کے بعض مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔بعض علماء نے سورۃ النساء کی آیت:43
"وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا" سے استدلال کیا ہے کہ اگر جنبی کا راستہ ہی مسجد میں سے ہے تو وہ(غسل وغیرہ کے لیے) گزر سکتا ہے۔
4۔حائضہ کا بھی مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔اس کی دلیل شق نمبر 3 کے تحت گزر چکی ہے ۔والحمدللہ(28؍مئی 2007ء) (الحدیث:39)