کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 192
بغداد(6؍93ت3127) اور الاسانید الصحیحہ (ص 14)اُن پر ابن خراش رافضی کی جرح مردود ہے۔ ابراہیم الجوہری رحمہ اللہ اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ احمد بن یحییٰ بن عثمان نے اُن کی متابعت تامہ کررکھی ہے۔ دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی(ج2 ص 789) اگر احمد بن یحییٰ بن عثمان کاذکر کاتب کی غلطی نہیں تو عرض ہے کہ یعقوب بن سفیان سے مروی ہے کہ میں نے ہزار اور زیادہ اساتذہ سے حدیث لکھی ہے اور سارے ثقہ تھے۔الخ (تہذیب الکمال ج1 ص 46 مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر اختصار ابن منظور 3؍106 ترجمہ احمد بن صالح المصری) تاریخ دمشق کا مذکورہ ترجمہ نسخہ مطبوعہ میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس قول کی سند نہیں مل سکی اور یہ قول اختصار کے ساتھ تاریخ بغداد(4؍199،200 وسندہ صحیح) وغیرہ میں موجودہے۔واللہ اعلم نیز دیکھئے التنکیل لمافی تانیب الکوثری من الاباطیل (1؍24) 5۔بعد کے علماء نے بھی مروجہ تقلید سے منع فرمایا ہے مثلاً امام ابومحمد القاسم بن محمد بن القاسم القرطبی رحمہ اللہ (متوفی 276ھ) نے مقلدین کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے۔دیکھئے سیر اعلام النبلا(13 339ت150) اور دین میں تقلید کامسئلہ(ص39) حافظ ابن حزم نے کہا:اور تقلید حرام ہے۔(النبذۃ الکافیہ فی احکام اصول الدین ص 70) عینی حنفی(!) نے کہا:پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کاارتکاب کرتا ہے اور ہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔(البنایہ شرح الہدایہ ج1ص 3179) 9۔دین اسلام میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرنے والے پر امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی تقلید حرام ہے۔ 10۔مروجہ تقلید کی وجہ سے اُمت میں بڑا انتشاراور اختلاف ہوا ہے۔ مثلاًدیکھئے الفوائد البہیہ(ص152،153) میزان الاعتدال(4؍52) فتاویٰ البزازیہ (4؍112) اور دین میں تقلید کامسئلہ(89،90)