کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 186
’’ اکثر لوگوں کا قاعدہ ہے کہ یوں تو اللہ کی راہ میں اپنا پیسہ خرچ نہیں کرتے جو کوئی مصیبت آن پڑے اس وقت طرح طرح کی منتیں اور نذریں مانتے ہیں۔باب کی حدیث میں۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نذر اور منت ماننے سے تقدیر نہیں پلٹ سکتی ہوتا وہی ہے جو تقدیر میں ہے۔مسلم کی حدیث میں صاف یوں ہے کہ نذر نہ مانا کرو اس لیے کہ نذر سے تقدیر نہیں پلٹ سکتی۔حالانکہ نذر کاپورا کرنا واجب ہے۔مگر آپ نے جو نذر سے منع فرمایا وہ اس نذرسے جس میں یہ اعتقاد ہوکہ نذر ماننے سےبلاٹل جائے گی جیسے اکثر جاہلوں کا عقیدہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ جان کر نذر کرے کہ نافع اورضار اللہ ہی ہے اور جو اس نے قسمت میں لکھا ہے وہی ہوگا تو ایسی نذر منع نہیں بلکہ اس کا پورا کرناایک عبادت اور واجب ہے۔اب ان لوگوں کے حال پر بہت ہی افسوس ہے جو خدا کو چھوڑ کر دوسرے بزرگوں یادرویشوں کی نذر مانیں وہ علاوہ گنہگار ہونے کے اپنا ایمان بھی کھوتے ہیں کیونکہ نذر ایک مالی عبادت ہے اس لیے غیر اللہ کی نذر ماننے والا مشرک ہوجاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور ج 8 ص 64،65قبل ح6608) مثلاً ایک آدمی کی اولاد نہیں ہے،اسے چاہیے کہ صدقات وغیرہ اورنیک اعمال میں مصروف رہ کر مسلسل دعائیں کرتا رہے،لیکن اگر وہ ایسا کرنے کے بجائے یہ نذر مانتا ہے کہ اے اللہ! اگر تُونے مجھے بیٹا دے دیا تو میں مسجد،مدرسہ یا ہسپتال وغیرہ تعمیر کروں گا۔ایسی نذر ماننا ممنوع ہے اور اگر مان لے تو اسے پورا کرناواجب ہے۔ دوسری طرف ایک شخص ہے ،اسے اللہ نے بیٹا دےدیایا کوئی نعمت عطا فرمائی تو خوش ہوکر اس نے نذر مان لی:’’اے اللہ تیرا شکر ہے ،میں تیرے دین کے لیے فلاں کام کروں گا۔‘‘ یہ نذر بالکل صحیح اور پسندیدہ ہے۔ اللہ کے نام پر نذر ونیاز جائز اور صحیح ہے بلکہ نذرونیاز ہوتی ہی صرف ایک اللہ کے لیے ہے۔غیراللہ کے نام پر نذرو نیاز حرام ہے۔اُمید ہے کہ آپ یہ مسئلہ سمجھ چکے ہوں گے۔واللہ اعلم۔