کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 185
مہران الاعمش(ثقہ مدلس) نے اُن کی متابعت کررکھی ہے۔ دوسرا اعتراض:اس کی سند میں زاذان راوی شیعہ ہے۔ جواب:زاذان ابوعمر کا شیعہ ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ حافظ ابونعیم الاصبہانی نے زاذان کو اہل سنت کے اولیاء میں شمار کیا ہے۔ (دیکھئے حلیۃ الاولیاء(4؍199۔204)اور ماہنامہ الحدیث حضرو:14ص25 ) جمہورمحدثین نے انھیں ثقہ وصدوق قراردیا ہے لہذا زاذان مذکور پر ہر قسم کی جرح مردود ہے،تفصیل کے لیے دیکھئے میرا مضمون’’الیاقوت والمرجان فی توثیق ابی عمر زاذان‘‘ والحمدللہ (3؍نومبر 2008ء) نذر اور تقدیر سوال: حدیث میں ہے کہ’’نذر سے تقدیر نہیں بدلتی لیکن بخیل کامال نکل جاتاہے‘‘اس کا کیا مطلب ہے۔نذرونیاز اللہ کے نام پر جائز ہے یاسنت ہے کہ نہیں؟ (عبدالعزیز بن) عبداللہ بن باز کے فتاویٰ میں انھوں نے یہ فرمایا ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی ہے تو پوری کرے مگر آئندہ ایسا نہ کرے اور پھر مندرجہ بالاحدیث بیان کی۔(محمد عادل شاہ،برطانیہ) الجواب: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لَا يَأْتِي ابْنَ آدَمَ النَّذْرُ بِشَيْءٍ لَمْ أكُنْ قَدَّرْتُهُ, وَلَكِنْ يُلْقِيهِ النَّذْرُ إِلَى الْقَدَرِ قَدْ قَدَّرْتُهُ، فَيَسْتَخْرِجُ اللّٰه عَزَّ وَجَلَّ بِهِ مِنْ الْبَخِيلِ فَيُؤْتِيني عَلَيْهِ مَا لَمْ يَكُنْ يُؤْتِيني عَلَيْهِ مِنْ قَبْلُ... " ’’ابن آدم(انسان) کو نذر کوئی چیز نہیں دیتی جو اُس کی تقدیر میں نہ ہو لیکن نذر اُسے اُس تقدیر کی طرف لے جاتی ہے جو اُس کے مقدر میں تھی،البتہ اللہ اس نذر کے ذریعے سے بخیل سے اس کا مال نکلواتا ہے لہذا وہ شخص وہ(مال وغیرہ صدقے میں) دیتا ہے جو وہ اس سے پہلے نہیں دیتا تھا۔‘‘(صحیح بخاری :6694 صحیح مسلم :1640) اس حدیث سے ثابت شدہ مسئلے کی تشریح میں مولانا محمد داود راز رحمہ اللہ نے فرمایا: