کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 184
اس سند کا دوسرا راوی عمران بن الحمیری مجہول الحال ہے جسے سوائے ابن حبان کے کسی نے بھی ثقہ نہیں قراردیا۔دیکھئے لسان المیزان(4؍345،دوسرا نسخہ 5؍264) امام بخاری رحمہ اللہ نے التاریخ الکبیر(6؍416) میں یہ روایت ذکر کرکے "لا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ" کہہ کر اس کے ضعف کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ مجہول راویوں کی ان دوسندوں کے بارے میں البانی رحمہ اللہ صاحب نے لکھا: "فالحديث بهذا الشاهد وغيره مما في معناه حسن ان شاء اللّٰه تعاليٰ" پس اس شاہد وغیرہ سے یہ حدیث ان شاء اللہ تعالیٰ حسن ہے۔(الصحیحہ 4؍45) عرض ہے کہ یہ روایت ان دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف ومردود ہی ہے اور مجہول راویوں کی روایتیں مردود ہوتی ہیں نہ کہ ضعیف+ضعیف کے خود ساختے کلیے کے ذریعے سے انھیں حسن قرار دیا جائے۔۔۔! دوسرے یہ کہ یہ ضعیف روایت اُس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَة سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلامَ" ’’بے شک اللہ کے فرشتے زمین میں پھرتے رہتے ہیں،وہ مجھے اپنی اُمت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔‘‘ (سنن النسائی 3؍43 ح 1283 وھو حدیث صحیح،مسند احمد 1؍387،452فضل الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للامام اسماعیل القاضی:21 وسندہ صحیح ،وصححہ ابن حبان الاحسان 910دوسرا نسخہ 914 والحاکم 2؍431ح3576ووافقہ الذہبی) ایک اعتراض:اس کی سند میں سفیان ثوری مدلس ہیں۔ الجواب: امام اسماعیل بن اسحاق القاضی نے فرمایا: "حدثنا مسدد قال:حدثنا يحيٰ عن سفيان:حدثني عبداللّٰه بن السائب عن زاذان عن عبداللّٰه هو ابن مسعود عن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم قال:( إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَة سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلامَ)" (فضل الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص 11ح 21 وسندہ صحیح) معلوم ہواکہ امام سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کردی ہے اور دوسرے یہ کہ سلیمان بن