کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 177
اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے ۔بعض حنابلہ نے اس حدیث کی تصحیح پر ایک بڑی کتاب بھی لکھی ہے مگرنہ تو وہ راویوں کی تصریح سماع ثابت کر سکے ہیں اور نہ کوئی معتبر متابعت ،لہذا بڑی کتاب لکھنے کاآخر کیا فائدہ ہے؟ (شہادت ،مئی 2000ء)
امام ابن خزیمہ اور اللہ تعالیٰ کی صفت:آنکھیں
سوال: امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے کتاب التوحید (ص 42،43 طبع بیروت) میں اللہ تعالیٰ کی آنکھیں ثابت کرنے کے لیے ایک روایت نقل کی ہے،وہ یہ ہے کہ:
"عن ابی ھریرۃ قال: رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ إِبْهَامَهُ عَلَى أُذُنِهِ، وَالَّتِي تَلِيهَا عَلَى عَيْنِهِ"
’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا،آپ اپنا انگوٹھا اپنے کان پر رکھتے اور شہادت کی انگلی کو اپنی آنکھ پر رکھتے۔‘‘
یہ روایت آیت: "إِنَّ اللّٰه كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا" کی تفسیر میں نقل کی ہے ۔اگر امام صاحب کے استدلال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے اللہ تعالیٰ کی آنکھیں ثابت کی جائیں تو پھر اس سے تو کان بھی ثابت ہوتے ہیں،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں کے ساتھ کانوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا سمیع سے کان ثابت ہوتے ہیں یانہیں؟
نیز امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے استدلال کی بھی وضاحت فرمائیں۔(ایک سائل)
الجواب: حدیث مذکور کو امام ابوداود رحمہ اللہ (4728) نے بھی روایت کیا ہے،اسے ابن حبان (الموارد:1732)حاکم(1؍24) اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔اس حدیث سے اللہ کا سمیع وبصیر ہونا ثابت ہے ،اس سے اللہ کا کان اور آنکھ ثابت کرنا صحیح نہیں،اللہ کی آنکھوں کا ثبوت قرآن ودیگر احادیث صحیحہ میں ہے،امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ذریعے سے جہمیہ کا رد کیا ہے جو کہ اللہ کو سمیع وبصیر نہیں مانتے۔(شہادت ،مارچ 2003ء)