کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 173
محمد بن سنان کا شاگرد اسماعیل بن الکرابیسی مجہول الحال ہے۔اس کے شاگرد ابوعمروعثمان بن محمد بن عثمان بن محمد بن عبدالملک کی توثیق نامعلوم ہے یعنی یہ سند ظلمات ہے۔
تنبیہ: اس مردود روایت کو عبدالحئی لکھنوی صاحب نے بحوالہ حلیۃ الاولیاء:
"حدثنا عثمان بن محمد العثماني ، قال : ثنا إسماعيل بن علي الكرابيسي ، قال : حدثني محمد بن سنان :حدثنا سنان عن ابيه" کی سند سے نقل کیاہے۔
(دیکھے اقامۃ الحجۃ علی ان لاکثارفی التعبد لیس ببدعۃ ص 24مجموعہ رسائل لکھنوی ج2ص 174)
لکھنوی صاحب سے اسے زکریا دیوبندی صاحب نے اپنی کتاب’’فضائل نماز‘‘ (ص 69،70؍تیسرا باب:خشوع وخضوع کے بیان میں) میں نقل کرکے عوام الناس کے سامنے پیش کردیاہے۔)نیز دیکھئے فضائل اعمال ص 361)
زکریا صاحب سے اسے کسی نور محمد قادری(دیوبندی) نامی شخص نے بطور استدلال وحجت نقل کرکے’’قبر میں نماز‘‘اور ’’عقیدہ حیات قبر‘‘ کاثبوت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔دیکھئے دیوبندیوں کا ماہنامہ’’الخیر‘‘ ملتان(جلد 24 شمارہ:5جون 2006ءص 25؍ 249)
عرض ہے کہ محمد بن سنان القزاز کے شدید ضعف اور الکرابیسی والعثمانی کی جہالت کے ساتھ ساتھ سنان اور اس کے باب(ابوسنان) کا کوئی اتا پتا معلوم نہیں ہے۔
عین ممکن ہے کہ عبدالحئی صاحب والے نسخے میں"شیبان بن جسر عن ابیہ" کو"سنان عن ابیہ" لکھ دیا گیا ہو۔
اس مردود روایت کو عبدالحئی لکھنوی صاحب کا بغیر تحقیق وجرح کے نقل کرنا اور پھر ان کی کورانہ تقلید میں زکریا صاحب،نور محمد قادری دیوبندی اور مسئولین ماہنامہ’’الخیر‘‘ ملتان کا عام لوگوں کے سامنے بطور حجت واستدلال پیش کرنا غلط حرکت ہے۔علماء کو چاہیے کہ عوام کے سامنے صرف وہی روایات پیش کریں جوکہ صحیح وثابت ہوں۔اس سلسلے میں علماء کو چاہیے کہ پوری تحقیق کریں ورنہ پھر خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔