کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 168
"أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ" ’’ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں،ان کے لیے عرش کے نیچے قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔وہ(روحیں) جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیرکرتی ہیں، پھر واپس ان قندیلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔‘‘(صحیح مسلم :121؍887اودارالسلام:4885) جب شہداء کرام کی روحیں جنت میں ہیں تو انبیاء کرام علیہ السلام اُن سے بدرجہ ہا اعلیٰ جنت کے اعلیٰ افضل ترین مقامات ومحلات میں ہیں۔شہداء کی یہ حیات جنتی،اُخروی وبرزخی ہے،اسی طرح انبیاء کرام علیہ السلام کی یہ حیات جنتی،اُخروی وبرزخی ہے۔ حافظ ذہبی (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں: "وهو حي في لحده حياة مثله في البرزخ " ’’اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی قبر میں برزخی طور پر زندہ ہیں۔‘‘(سیر اعلام النبلاء 9؍161) پھر وہ یہ فلسفہ لکھتے ہیں کہ یہ زندگی نہ تو ہر لحاظ سے دنیاوی ہے اور نہ ہرلحاظ سے جنتی ہے بلکہ اصحاب کہف کی زندگی سے مشابہ ہے۔(ایضاً ص 161) حالانکہ اصحاب کہف دنیاوی زندہ تھے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہ اعتراف حافظ ذہبی وفات آچکی ہے، لہذا صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہرلحاظ سے جنتی زندگی ہے یاد رہے کہ حافظ ذہبی بصراحت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دنیاوی زندگی کے عقیدے کے مخالف ہیں۔ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "لِأَنَّهُ بَعْدَ مَوْتِهِ وَإِنْ كَانَ حَيًّا فَهِيَ حَيَاةٌ أُخْرَوِيَّةٌ لَا تُشْبِهُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا , وَاللّٰه أَعْلَمُ" ’’بے شک آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں ہے۔واللہ اعلم۔‘‘ (فتح الباری ج 7 ص 349 تحت ح 4042) معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اُخروی وبرزخی ہے ،دنیاوی نہیں ہے۔