کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 165
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا مِنْ نَبيٍّ يَمْرَضُ إِلاَّ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ"
’’جو نبی بھی بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اورآخرت کے درمیان اختیار دیاجاتا ہے۔‘‘(صحیح البخاری 4586 صحیح مسلم :2444)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے د نیا کے بدلے میں آخرت کو اختیار کرلیا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی زندگی اُخروی زندگی ہے جسے بعض علماء برزخی زندگی بھی کہتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"كُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَا يَمُوتُ نَبِيٌّ حَتَّى يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"
’’ میں(آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سنتی تھی کہ کوئی نبی وفات نہیں پاتا یہاں تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دے دیا جاتاہے۔‘‘(البخاری:4435 ومسلم :2444)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں:
"فَجَمَعَ اللّٰه بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الْآخِرَةِ" (صحیح البخاری :4451)
’’پس اللہ تعالیٰ نے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور آپ کے لعاب دہن کو(مسواک کے ذریعے سے) اکٹھا کردیا۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت میں ہے:
"لقد مات رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم.....الخ"
’’یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم:29؍2974وتر قیم دارالسلام :7453)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ان صحیح ومتواتر دلائل سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی وروحی،فوت ہوگئے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نماز کے بارے میں فرماتے تھے:
"إن كانت هذه لصلاته حتى فارق الدنيا"’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی