کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 162
(محمد بن الحسین) السلمی النیسابوری لکھی ہوئی ہے۔(ص 13 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
ابوعبدالرحمان السلمی اگرچہ اپنے عام شہروالوں اور اپنے مریدوں کے نزدیک جلیل القدر تھا مگر اسی شہر کے محدث بن یوسف القطان النیسابوری:"وکان صدوقاً، له معرفة بالحديث وقد درس شیئاً من فقه الشافعي، وله مذهب مستقيم و طريقة جميلة "تاریخ بغداد 3؍411) فرماتے ہیں:"کان أبو عبدالرحمٰن السلمي غير ثقة…….وکان يضع للصوفية الاحاديث"ابوعبدالرحمان السلمی غیر ثقہ تھا۔۔۔اور وہ صوفیوں کے لیے احادیث گھڑتا تھا۔(تاریخ بغداد ج2ص 248وسندہ صحیح)
اس شدید جرح کے مقابلے میں سلمی مذکور کی تعدیل بطریقۂ محدثین ثابت نہیں ہے۔سلمی کے استاد محمد بن محمد بن غالب اور اس کے استاد ابونصر احمد بن سعید الاسفنجانی کی توثیق بھی مطلوب ہے۔خلاصہ یہ کہ اس موضوع سند کوتھانوی صاحب نے فخریہ پیش کیا ہے۔
تنبیہ تبلیغ:عبدالکریم بن ہوازن نے رسالہ قشیریہ میں حسین الحلاج کو بطور ولی ذکر نہیں کیا۔رسالہ قشیریہ اس کے ترجمہ سے خالی ہے کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طور پر اگر ایک موضوع روایت میں اُس کا نام آگیا ہے تو اس پر خوشی نہیں منانی چاہیے۔
خلاصۃ التحقیق: حسین بن منصور الحلاج اولیاء اللہ میں سے نہیں تھا بلکہ وہ ایک گمراہ و زندیق صوفی تھاجسے جلیل القدر فقہاء اسلام کے متفقہ فتوے کی بنیاد پر چوتھی صدی ہجری کے شروع میں قتل کردیا گیا تھا۔اس کی کرامتوں کے بارے میں سارے قصے موضوع وبے اصل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ولا أری يتعصب للحلاج إلا من قال بقوله الذي ذکر أنه عين الجمع فهذا هو قول اهل الوحدۃ المطلقة ولهذا تری ابن عربي صاحب الفصوص يعظمه ويقع فی الجنيد واللّٰه الموفق "
میری رائے میں حلاج کی حمایت ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں کرتا جو اس کی اس بات کے قائل ہیں جس کو وہ عین جمع کہتے ہیں اور یہی اہل وحدت مطلقہ کا قول ہے، اس لیے تم ابن