کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 161
شیخ الاسلام نے مزید فرمایا:
"وكذلك من لم يجوز قتل مثله فهو مارق من دين الإسلام"
’’اور اسی طرح جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ(شخص) دین اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (مجموع فتاویٰ ج2 ص 486)
4۔حافظ ابن الجوزی نے اس(حسین بن منصور) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے:
"القاطع المحال اللجاج القاطع بمحال الحلاج"(المنتظم 13؍204)
ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"أنه کان مُمَخْرِقاً" ’’بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا۔‘‘(ایضاً 13؍206)
ان شدید جرحوں کے مقابلے میں حلاج مذکور کی تعریف وتوثیق ثابت نہیں ہے۔
ظفر احمد عثمانی تھانوی دیوبندی صاحب نے اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کی زیرنگرانی ایک کتاب لکھی ہے’’القول المنصور فی ابن منصور ،سیرت منصور حلاج‘‘ یہ کتاب مکتبہ دارالعلوم کراچی نمبر14 سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب میں تھانوی صاحب نے موضوع،بے اصل اور مردود روایات جمع کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ (دیوبندیوں کے نزدیک)حسین بن منصور حلاج اچھاآدمی تھا۔(!)
مثال نمبر1:تھانوی صاحب نے لکھا ہے:’’ لوگوں کے اسرار بیان کردیتے ،ان کے دلوں کی باتیں بتلادیتے(یعنی کشف ضمائر بھی حاصل تھا)اسی وجہ سے ان کو حلاج الاسرار کہنے لگے،پھر حلاج لقب پڑگیا۔‘‘ (سیرت منصور حلاج ص 31)
تبصرہ: اس قول کی بنیاد تاریخ بغدادکی ایک روایت ہے جسے احمد بن الحسین بن منصور نے تستر میں بیان کیا تھا(ج 8 ص 113) احمد بن الحسین بن منصور کے حالات معلوم نہیں ہیں لہذا یہ شخص مجہول ہے۔
مثال نمبر 2: تھانوی صاحب نے لکھا ہے:’’حسین بن منصور نے فرمایا کہ :اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے حدوث کو لازم کردیا ہے۔۔۔۔۔‘‘ (سیرت منصور حلاج ص 47 بحوالہ رسالہ قشیریہ)
عبدالکریم بن ہوازن القشیری کے الرسالۃ القشیریۃ میں یہ عبارت بحوالہ ابوعبدالرحمان