کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 155
بالنار....." پھر سبائی ہیں،جب انھوں نے کفر میں غلو کیا تو یہ دعویٰ کیا کہ علی اُن کے الٰہ (معبود) ہیں حتیٰ کہ انھوں(علی رضی اللہ عنہ ) نے ان لوگوں کو جلادیا۔(احوال الرجال ص 37) 10۔امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اعمش کے شاگرد ابو سلمان یزید نامی راوی کے بارے میں فرمایا:"وھو سبائی"اور وہ سبائی ہے۔(تاریخ ابن معین ،روایۃ الددری:2870) ان کے علاوہ اور بھی کئی حوالے ہیں جن سے عبداللہ بن سبا یہودی کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔اہلسنت کی اسماء الرجال کی کتابوں میں بھی ابن سبا کا تذکرہ موجود ہے۔ مثلاً دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر(31؍3) میزان الاعتدال(2؍426) لسان المیزان (3؍289،دوسرانسخہ 4؍22) وغیرہ۔ فرقوں پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں بھی عبداللہ بن سبا اور سبائیوں کا ذکر موجود ہے۔مثلاًدیکھئے ابو الحسن الاشعری کی کتاب"مقالات الاسلامیین"(ص86) الملل والنحل للشہرستانی(ج2 ص11) اوزاالفصل فی الملل والاھواء والنحل(4؍180) وغیرہ۔ حافظ ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں: "وقالت السبأية أصحاب عبداللّٰه بن سبأ الحميري اليهودي مثل ذلك في علي ابن أبي طالب رضي اللّٰه عنه" اور سبائیوں:عبداللہ بن سباحمیری یہودی کے پیروکاروں نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اسی طرح کی باتیں کہی ہیں۔(الفصل فی الملل 4؍180) ابوالحسن الاشعری فرماتے ہیں:"والصنف الرابع عشر من أصناف الغالية، وهم السبئية، أصحاب عبداللّٰه بن سبأ، يزعمون أن عليًّا لم يمت، وأنه يرجع إلى الدنيا قبل يوم القيامة....." ’’غالیوں میں سے چودھویں قسم سبائیوں کی ہے جو عبداللہ بن سبا کے پیروکار ہیں،وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ علی( رضی اللہ عنہ ) فوت نہیں ہوئے اور بے شک وہ قیامت سے پہلے دنیا میں واپس آئیں گے۔۔۔(مقالات الاسلامیین ص 86) حافظ ذہبی نے عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا ہےکہ:"من غلاة الزنادقة، ضال مضل" ’’وہ غالی زندیقوں میں سے(اور) ضال مضل تھا۔‘‘ (میزان الاعتدال 2؍426)