کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 152
احمد بن کامل ہی نے بتایا ہے کہ غلام خلیل۔275ھ۔میں فوت ہوا تھا،(تاریخ بغداد 5؍80)حافظ ذہبی نے کہا: "غلام خليل…و عنه ابن كامل"(میزان الاعتدال 1؍141) امام حاکم النیسابوری نے غلام خلیل کے ذکر میں کہا ہے: "روي عن جماعة من الثقات أحاديث موضوعه على ماذكره لنا القاضي أبو بكر أحمد بن كامل بن خلف من زهده و ورعه و نعو ذبااللّٰه من زهد يقيم صاحبه ذلك المقام" (المدخل :ص 121ت18) بربہاری کے شاگردوں میں احمد بن کامل اور احمد بن کامل کے شاگردوں میں بربہاری کا نام مجھے نہیں ملا۔ 3۔بربہاری کی طرف منسوب یہ کتاب صرف غلام خلیل اور قاضی احمد بن کامل کی سند سے ہی معلوم ومعروف ہے،لہذا یہ ساری کتاب مشکوک ہے۔ 4۔جن لوگوں نے بربہاری کے حالات لکھے ہیں اور کتاب’’ شرح السنہ‘‘ان کی طرف منسوب کی ہے ان میں سے کسی نے بھی بربہاری کو نہیں دیکھا ،بے سند اقوال کی علمی میدان میں کوئی حجت نہیں ہوتی،مثلاً قاضی ابو الحسین محمد بن ابی یعلیٰ(پیدائش !451ھ وفات 526ھ) نے بغیر کسی سند کے حسن بن علی بن خلف البر بہاری(متوفی 329ھ) سے نقل کیا کہ انھوں نے شرح السنہ میں یہ لکھا ہے اور یہ لکھا ہے۔الخ(طبقات الحنابلہ 2؍18۔46) 5۔اگر بطور تنزل یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ کتاب غلام خلیل کی نہیں بلکہ بربہاری کی ہی ہے،حالانکہ یہ محال اور باطل ہے تو بھی غلام خلیل کے کذاب اور وضاع ہونے کی وجہ سے شرح السنہ کا یہ نسخہ مردود اور غیر ثابت ہی ہے۔ 6۔امام ابن تیمیہ ، امام ذہبی ،ابن عبدالھادی،ابن مفلح الحنبلی اور متاخرین نے بغیر کسی صحیح سند سے بر بہاری کے جو اقوال نقل کیے ہیں ممکن ہے ان سب کا ماخذ ابن ابی یعلیٰ کی طبقات الحنابلہ ہو،اور اگر نہ بھی ہوتوان کا ماخذ نامعلوم ہے لہذا ان نقول سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ شرح السنہ کا(غلام خلیل والا) نسخہ بربہاری کا ہی لکھاہوا ہے ۔