کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 148
"إِذَا ظَهَرَتِ الْبِدَعُ فِي أُمَّتِي فَعَلَى الْعَالِمِ أَنْ يُظْهِرَ عَلِمَهُ ، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللّٰه " ’’سیدنا ابوہریرہ( رضی اللہ عنہ ) سے مرفوعا مروی ہے کہ جب میری اُمت میں بدعتیں ظاہر ہوجائیں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالیاں دی جائیں تو عالم کواپنا علم ظاہر کرنا چاہیےاگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘(1؍390ح1275) یہ روایت بے سند وبے اصل ہے، لہذا مردود و باطل ہے ،اس مفہوم کی تائید کرنے والی ایک ضعیف مردود روایت تاریخ دمشق لابن عساکر(57؍62) میں ہے۔اس روایت میں محمد بن عبدالرحمان بن رمل الدمشقی مجہول الحال ہے،شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔(السلسۃ الضعیفہ 4؍14ح1506) دیلمی نے اس کی ایک موضوع(من گھڑت) سند بھی بیان کررکھی ہے۔(ایضاً ص 15) خلاصہ:یہ روایت بے اصل ومردود ہے۔ 3۔یہ روایت بے اصل ہے ،اس کی کوئی سند مجھے نہیں ملی۔ 4۔سنن ترمذی کی ایک روایت(ح3673) میں آیا ہے: "لاينبغي فيهم ابوبكر ان يومهم غيره" ’’ لوگوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اگران میں ابوبکر( رضی اللہ عنہ ) موجود ہوں تو کوئی دوسرا شخص ان کی امامت کرائے۔‘‘ یہ روایت ضعیف ہے،عیسیٰ بن میمون الانصاری :ضعیف ہے۔(التقریب:5335) محدث البانی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:"ضعیف جداً"یعنی سخت ضعیف ہے۔ (سنن الترمذی ص 834،السلسلۃ الضیعفہ 10؍365) اس کی تائید میں دو مردود اورباطل روایتیں السلسلہ الصحیحہ(10؍366ح820) میں بطور ردمذکور ہیں۔محدث ارشاد الحق اثری نے سیوطی(الآلی 1؍296) وغیرہ میں کہا ہے کہ یہ روایت شواہد کے لحاظ سے حسن یعنی حسن لغیرہ ہے حالانکہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے،اس روایت کے شواہد مردود وباطل ہیں، لہذا یہ حسن لغیرہ کے درجے تک قطعاً نہیں پہنچتی۔ (نیز ایسی حسن لغیرہ یعنی ضعیف+ضعیف= ضعیف ہی رہتی ہے،یہ قابل حجت اور دلیل نہیں