کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 144
کہ ابن ادریس مصحف (تصحیف شدہ) ہے۔(مسند ابی یعلیٰ 6؍165 ح6716)
حسین سلیم اسد نے لکھا ہے:
"إسناده صحيح إن كانت زينب [سمعت] من أمها، وإلا فهو منقطع"
یعنی اس کی سند صحیح ہے،اگر زینب نے اپنی ماں(فاطمہ رضی اللہ عنہا ) سے سنا ہے ورنہ منقطع ہے۔(مسند ابی یعلیٰ 12؍117 ح6750 حاشیہ:4)
ابوادریس(تلید) کی سند کو ابن ادریس(عبداللہ بن ادریس رحمہ اللہ )سمجھ کر اس روایت کو صحیح قرار دیناحسین الدارانی جیسے لوگوں کاہی کام ہے۔
تنبیہ(2): ابوالحجاف دادو بن ابی عوف کا ذکر تلید ابوادریس کے استادوں میں تو موجود ہے۔(دیکھئے تہذیب الکمال وغیرہ)
لیکن عبداللہ بن ادریس کے استادوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ تلید ابوادریس کی بیان کردہ یہ روایت باطل ہے،اس کے بارے میں امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"هذا لا يصح عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم"
’’یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح(ثابت) نہیں ہے۔‘‘(العلل المتناہیہ 1؍159ح255)
6۔ "حجاج بن تميم عن ميمون بن مهران عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قال: يا علي ! سيكون في أمتنا قوم ينتحلون حبنا أهل البيت ، لهم نبز ، يسمون الرافضة ، فاقتلوهم فإنهم مشركون"
’’اے علی(بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ) عنقریب میری امت میں سے ایک قوم ہوگی جو ہمارے اہل بیت کی محبت کادعویٰ کرے گی،ان لوگوں کا لقب راضی ہوگا،پس انھیں قتل کرویہ مشرک ہیں۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی 12؍242ح12998 وحلیۃ الاولیاء 4؍95 مسند ابی یعلیٰ 4؍459 ح2586 والسنۃ لابن ابی عاصم ح981)
یہ روایت ضعیف ہے ،حجاج بن تمیم :ضعیف ہے جیسا کہ روایت:3 کی تحقیق میں گزر چکا ہے۔اس ضعیف راوی کے باوجود علامہ ہیثمی لکھتے ہیں:
"واسنادہ حسن"اور اس کی سند حسن ہے۔(مجمع الزوائد 10؍22)