کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 143
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی( رضی اللہ عنہ ) کی طرف دیکھ کر فرمایا:یہ جنتی ہے اور اس کے شیعہ میں سے ایک قوم (ایسی) ہوگی جنھیں اسلام دیا جائے گاتو وہ اسلام کو پھینک دیں گے،ان کا(صفاتی) نام رافضی ہوگا،جو شخص انھیں پائے تو قتل کردے کیونکہ یہ مشرک ہیں۔
(کتاب المجروحین لابن حبان:1؍205 واللفظ لہ ،العلل المتناہیہ:1؍159 ح:255ومسند ابی یعلی بتحقیق الشیخ الاثری 6؍165 ح6716 وتحقیق حسین سلیم اسد 2؍12؍116۔117 ح6749 ،ونسخہ مخطوطہ ص 135،تاریخ دمشق لابن عساکر 73؍130،موضح اوھام الجمع والتفریق للخطیب1؍43)
یہ روایت سخت ضعیف اور باطل ہے۔تلید بن سلیمان پر جمہور محدثین نے شدید جرح کی ہے لہذا بعض محدثین کی توثیق مردود ہے۔
امام یحییٰ بن معین(متوفی 233ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وهذا يحيى بن معين يقول: "كلّ من شتم عثمان أو طلحة أو أحداً من أصحاب رسول اللّٰه (صلى اللّٰه عليه وآله وسلم) دجّال لا يكتَب عنه، وعليه لعنة اللّٰه والملائكة والناس أجمعين "
" تلید کذاب ہے،عثمان( رضی اللہ عنہ ) کو گالیاں دیتا تھا۔اور ہر وہ شخص جو عثمان یا طلحہ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ایک صحابی( رضی اللہ عنہ ) کو گالی دے تو وہ شخص دجال ہے اس سے(کچھ بھی) نہ لکھا جائے اور ایسے شخص پر اللہ،فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔(تاریخ ابن معین :روایۃ الدوری:2670)
تنبیہ (1): مسند ابی یعلیٰ میں قدیم زمانے سے یہ غلطی چلی آرہی ہے کہ ابوادریس(تلید بن سلیمان) کے بجائے ابن ادریس لکھا ہوا ہے جو کہ یقیناً غلط ہے۔
حافظ الشام ابن عساکر مسند ابی یعلیٰ کے نسخے کی غلطی پر تنبیہ فرماتے ہیں:
"كذا قال وانما هو ابو ادريس وهو تليد بن سليمان "
راوی نے اسی طرح کہا ہے(!) حالانکہ یہ راوی(صرف اور صرف) ابو ادریس تلید بن سلیمان ہے۔(تاریخ دمشق 73؍131)
محقق جلیل القدر مولانا ارشادالحق اثری نے بھی اس قدیم غلطی کی نشاندہی کرکے لکھ دیاہے