کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 137
ملا علی قاری کی شرح کے ساتھ الفقہ الاکبر کا جونسخہ مطبوعہ ہے اس کے شروع میں نسخے کے راوی،ناسخ اور ناسخ سے امام ابوحنیفہ تک کوئی سند موجود نہیں ہے ۔حاجی خلیفہ نے لکھا ہے کہ روى عنه أبو مطيع البلخي ... اسے(امام ابوحنیفہ سے) ابو مطیع البلخی نے روایت کیا ہے۔(کشف الظنون 2؍1287) ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔اسے ابن معین،بخاری اور نسائی (کتاب الضعفاء والمتروکین :654) وغیرہم نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ایک حدیث کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا: "فهذا وضعه أبو مطيع على حماد" اسے ابو مطیع نے حماد(بن سلمہ) پر گھڑا ہے۔(میزان الاعتدال 3؍42ت 5523) یعنی ابو مطیع وضاع(حدیثیں گھڑنے والاتھا) ابومطیع سے نیچے،اس نسخے کی سند نا معلوم ہے۔ ایک ملاصاحب نے اس کتاب کی ایک دوسری سند فٹ کررکھی ہے۔(دیکھئے مجموعۃ الرسائل العشرۃ ص17) اس سند میں بہت سے راوی مجہول ،غیر معروف اور نا معلوم التوثیق ہیں،مثلاً: نصر بن یحییٰ البلخی ،علی بن احمد الفارسی،علی بن الحسین الغزالی،نصر ان بن نصر المختلی اور حسین بن الحسین الکاشغری وغیرہم۔ اس سند کا بنیادی راوی:ملاصاحب بذات خود مجہول ہے۔ خلاصہ یہ کہ سند بھی موضوع وباطل ہے۔ تنبیہ: اس موضوع رسالے’’الفقہ الاکبر‘‘میں لکھا ہوا ہے: "فما ذكره اللّٰه تعالى في القرآن من ذكر الوجه، واليد، والنفس، فهو صفات بلا كيف، ولا يقال إن يده قدرته و نعمته، لأن فيه إبطال الصفة، وهو قول أهل القدر والاعتزال، ولكن يده صفتہ بلا كيف " ’’پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وجہ(چہرہ)ید (ہاتھ) اور نفس(جان) کا جو ذکر کیا ہے وہ اس