کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 134
خود ساختہ نسخہ پیش کرکے شور مچانا شروع کردے کہ مخطوطہ مل گیا ہے تو علمی میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ 7۔اس کتاب کے دیگر نسخوں کو مد نظر رکھا جائے،مثلاً قاسم بن قطوبغا(کذاب) نے مصنف ابن ابی شیبہ کے ایک(نامعلوم) نسخہ سے"تحت السرہ"کے اضافے والی حدیث نقل کی ہے جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے دیگر نسخوں میں یہ اضافہ قطعاً موجود نہیں ہے۔ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب ایک اصول سمجھاتے ہیں: اگر ایک عبارت بعض نسخوں میں ہو اور بعض میں نہ ہوتو:"فعلى هذا هذه العبارة مشكوك فيها" ’’اس طرح سے یہ عبارت مشکوک ہوجاتی ہے۔‘‘ (بذل المجھود 4؍471تحت ح:748) 8۔اس کتاب کی عبارات وروایات کا ان کتابوں سے مقارنہ کیا جائے جن میں اس کتاب سے روایت یانقل موجود ہو،مثلاً سنن ابی داود کی احادیث کا السنن الکبری للبیہقی میں احادیث ابی داود سے مقارنہ ومقابلہ کیا جائے۔امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ امام ابوداود سے روایتیں نقل کرتے ہیں۔ 9۔یہ بھی شرط ہے کہ علمائے کرام اور محدثین عظام نے نسخۂ مذکورہ پر طعن وجرح نہ کی ہو۔ 10۔صاحب کتاب سے اگرکتاب صحیح وثابت ہوتو پھر بھی یہ شرط ضروری ہے: صاحب کتب سے لے کر صاحب قول یا صاحب روایت تک سند صحیح یا حسن لذاتہ ہو۔اگر ان شرائط میں سے ایک شرط بھی مفقود ہوتو اس کتاب کی روایت سے استدلال کرناباطل ومردود ہوجاتا ہے۔ تنبیہ:محمد محب اللہ نوری بریلوی نےدعویٰ کیا ہے: ’’حال ہی میں فضیلۃالشیخ عیسیٰ مانع(سابق منسٹراوقاف دبئی) اور اہلسنت کے نام اور عالم دین اور محقق حضرت علامہ محمد عباس رضوی کی جستجو سے’’مصنف عبدالرزاق‘‘ کا مخطوطہ افغانستان سے دستیاب ہوا ہے،جس میں’’تخلیق نور محمدی‘‘ پر مستقل باب موجود ہے اور اس میں’’حدیث جابر‘‘ کم وبیش پانچ سندوں کے ساتھ درج ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی اشاعتی