کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 133
ایک جگہ اعظمی صاحب خود لکھتے ہیں:"في الاصل تقوت وهي معرفة" (مسند الحمیدی 1؍15تحت ح24) یعنی اصل میں"تقوت" کا لفظ محرف ہے ،تحریف ہوگئی ہے۔ عرض ہے کہ ایسی محرف کتابوں سے وہی لوگ استدلال کرتے ہیں جو تحریفات واکاذیب سے محبت رکھتے ہیں۔ 3۔ناسخ مخطوطہ سے صاحب کتاب تک سند صحیح ہو،مثلاً: ابن ابی حاتم الرازی کی کتاب"اصول الدین"کی سند،صاحب مخطوطہ سے لے کر ابن ابی حاتم تک صحیح ہے۔(دیکھئے الحدیث حضرو،ج1 شمارہ :2 ص41) جبکہ شرح السنہ للبربہاری کی سند میں دوراوی مجروح ہیں: اول:غلام خلیل کذاب ہے۔(ماہنامہ الحدیث شمارہ:2ص 25) دوم:قاضی احمد بن کامل متساہل(ضعیف) ہے۔(ایضاً ص25) لہذا اس کتاب(شرح السنہ للبربہاری :مطبوع ومخطوط) سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ 4۔مخطوطہ(کتاب کے قلمی نسخے) کا محل وقوع،خط،تاریخ نسخ پہچاننا اور قدامت کی تحقیق ضروری ہے،جو نسخہ پرانا اور قلیل الغلط ہو،اسے بعد والےتمام نسخوں پر فوقیت حاصل ہے۔ 5۔نسخہ پر علمائے کرام اور ائمہ دین کے سماعات ہوں،مثلاً مسند حمیدی کا مخطوطہ ظاہر یہ،نسخہ دیوبندیہ ونسخہ،سعید یہ سے قدیم ترین(نوشتہ 689ھ) ہے اور اس پر جلیل القدر علماء کے سماعات بھی ہیں،اور قلیل الغلط بھی ہے لہذا اسے دونوں (دیوبندیہ وسعیدیہ) پر فوقت حاصل ہے۔ (سماع کی جمع سماعات ہے۔جب ایک قلمی نسخہ علماء کرام خود پڑھتے یا انھیں سنایا جاتا تو وہ اس پر لکھ دیتے تھے کہ یہ فلاں فلاں نے پڑھایا سنا ہے ،اسے سماعات کہتے ہیں۔) 6۔نسخہ علماء کے درمیان مشہور ہو۔ آج اگر کوئی شخص افغانستان ،قزاقستان،گرجستان وغیرہ کے کسی کو نے کھدرے سے