کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 128
فما هو الا انكار مقنع لمضمون الكلام ومعناه‘ وسواء اكان اسمه في قول اهل النسب نقلاً عن الكتب السابقة "تارح" اولم يكن ‘فلا اثرله في وجوب الايمان بصدق مانص عليه القرآن وبدلالة لفظ"لابيه" علي معناه الوضعي في اللغة ‘والقرآن هو المهيمن علي ما قبله من كتب الاديان السابقة ثم يقطع كل شك ويذهب بكل تاويل الحديث الصحيح الذي رواه البخاري۔ (٤؍١٣٩ من الطبعة السلطانيه ؍٦؍٢٧٦ من فتح الباري) "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اللّٰه عنه عَنِ النَّبِي صلى اللّٰه عليه وسلم قَالَ :( يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ ، فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ : أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لاَ تَعْصِنِي ؟ ) وليس بعد هذا النص مجال للتلاعب " یعنی:ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر ہونا ہمارے نزدیک،اس آیت کریمہ میں قرآن کی صراحت کے ساتھ قطعی الثبوت ہے،الفاظ بھی اس معنی پردلالت کرتے ہیں،رہا تاویلیں کرنا اور الفاظ کے ساتھ کھیلنا تو یہ قرآن کے مضمون کا انکار ہی ہے ،اہل نسب نے پہلی (محرف شدہ) کتابوں سے تارح نقل کیا ہے،اس کا قرآن کے مقابلے میں کوئی اثر(واعتبار) نہیں ہے،لغت میں "لابيه "کا لفظ اصل میں باپ پر دلالت کرتا ہے،اور قرآن مجید پہلی تمام کتابوں پر فیصلہ کن حاکم اور نگران ہے۔پھر اس صحیح حدیث سے بھی ہرقسم کا شک اور تاویل باطل ہوجاتی ہے جسے بخاری رحمہ اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملاقات کریں گے اورآزر کے چہرے پر کالک اورگردوغبار چھایا ہوگا تو اسے ابراہیم علیہ السلام کہیں گے:کیا میں نے تجھے یہ نہیں کہا تھا:میری نافرمانی نہ کر؟ (صحیح بخاری:3350) اس حدیث کے بعد کسی تلاعب)الفاظ کے ساتھ کھیلنے)کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔(عمدۃ التفسیر ج5 ص53)(الحدیث:3)