کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 127
طرق عن ابن عباس رضي اللّٰه عنه"(الخصائص الکبری:1؍37)
حالانکہ ابو نعیم نے اسے ایک ہی سند سے روایت کیا ہے۔
تفسیر ابن ابی حاتم(ج9 ص 2828 ح16028) وغیرہ میں حسن سند سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے"وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ"کی تفسیر میں فرمایا:
"من نبيّ إلى نبيّ حتى أخرجك نبيّاً"
’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل نبی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔‘‘
اس موقوف قول کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ،دادا عبدالمطلب ،پردادا ہاشم:یہ سب نبی تھے اور نہ یہ کسی کا عقیدہ ہے،صحیح بخاری کی صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آباءواجداد میں سے اسماعیل علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی نبی نہیں تھا۔
دیکھئے کتاب بدءالوحی(باب:1ح7)
آلوسی نے لکھا ہے کہ "أخرجه ابن المنذر في تفسيره بسند صحيح عن سليمان بن صرد قال .....فقال عمہ إبراهيم : من أجلي دفع عنه....." (روح المعانی ج4 ص 195)
اس قول کی کوئی سند معلوم نہیں ہے،پتا نہیں کہ آلوسی نے کہاں سے یہ دعویٰ کررکھا ہے کہ "بسند صحیح" !،بے اصل وبے سند روایات کو"بسند صحیح" کہہ کر تسلیم کروانا بہت ہی عجیب کام ہے ۔اگریہ قول باسند صحیح ثابت ہوبھی جاتا تو اس کامطلب صرف یہ ہوتا کہ ابراہیم علیہ السلام کا والد آزر اور چچا(نام غیرمعلوم)دونوں آپ علیہ السلام کے سخت مخالف تھے،اور ایسا ہونا کوئی بعید نہیں ہے،یاد رہے کہ اس بے سند روایت میں ولدیت آزر کی نفی موجود نہیں ہے۔
محدث کبیر ابو الاشبال احمد محمد شاکر المصری رحمہ اللہ نے صاف صاف لکھا ہے کہ"أمّا أنّ اسم والد إبراهيم (آزر) فإنه عندنا أمر قطعي الثبوت، بصريح القرآن في هذه الآية بدلالة الألفاظ على المعاني، وأما التأويل والتلاعب بالألفاظ ،