کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 125
2۔ابن جریج سے مروی ہے کہ" ليس آزر بأبيه" الخ(درمنثور ج3 ص 23 بحوالہ ابن المنذر) اس روایت کی کوئی سند معلوم نہیں ہے،لہذا یہ روایت مردود ہے۔ 3۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ "إن أبا إبراهيم لم يكن اسمه آزرُ، إنما كان اسمه تارح" (تفسیر ابن ابی حاتم:4؍1325 ح7491) یہ روایت ضعیف ومردود ہے۔ بشر بن عمارہ الخثعمی المکتب الکوفی:ضعیف ہے۔(التقریب:697) ضحاک بن مزاحم نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے (کچھ بھی ) نہیں سنا۔ دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل (ج 4 ص 459 عن ابی زرعہ رحمہ اللہ ) مضبوط سند کے ساتھ مروی ہے کہ عبدالملک بن میسرہ نے ضحاک بن مزاحم سے پوچھا: کیاآپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے(کچھ) سناہے؟کہا:نہیں۔کہا:یہ(تفسیر) جو آپ بیان کرتے ہیں یہ کس سے لی ہے؟کہا:تجھ سے اور اس سے اور اُس سے۔ (کتاب الجرح والتعدیل ج 4ص 458،ج8ص333،کتاب المراسیل لابن ابی حاتم ص95) اس روایت کے راوی معلیٰ بن خالد الرازی ثقہ ہیں اور ابواسامہ تدلیس معروف کے الزام سے بری تھے۔دیکھئے میری کتاب"الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین"(2؍44) تنبیہ(1): ابن ابی حاتم نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس( رضی اللہ عنہ ) سے نقل کیا ہے کہ: "يعني‌ بآزر: الصنم‌، و ‌أبو‌ إبراهيم‌ اسمه‌: يازر. و أمه‌ اسمها: مثاني‌.الخ" (تفسیر ابن ابی حاتم 4؍1324) یہ روایت اسرائیلیات سے ماخوذ ہے،یازراور آزر ایک ہی شخصیت کا نام ہے۔صرف لہجے میں فرق ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام اور ابراہام ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔بت کا نام آزر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بت پرست کانام آزر نہیں ہوسکتا رام نامی ہندو،رام بت کی عبادت کرتا ہے حالانکہ عبادت صرف ایک اللہ ہی کی کرنی چاہیے۔ تنبیہ(2): کسی ایک صحابی یاتابعی سے باسند صحیح قطعاً یہ ثابت نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے