کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 124
(15) سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إن إبراهيم رأى أباه يوم القيامة عليه الغَبَرَةُ والقَتَرَةُ " ’’بے شک ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو قیامت کے دن دیکھیں گے،اس پر گرد اور کالک چھائی ہوگی۔‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائی:ح11375،والتفسیر للنسائی:ح395 وسندہ صحیح ولہ طریق آخر عند البخاری فی صحیحہ :4768) (16) اسماعیل بن عبدالرحمان السدی (تابعی رحمہ اللہ ) نے کہا: "اسم أبيه آزر" ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آزر ہے۔(تفسیر طبری:ج 7 ص158،وسندہ حسن لذاتہ) تنبیہ: ایک دوسری روایت میں سدی مذکور نے صیغہ تمریض استعمال کرتے ہوئے کہا: "ويقال : لا، بل اسمه تارح، واسم الصنم "آزر" (تفسیر طبری:7؍158،159 ،وسندہ حسن) "ویقال" میں اشارہ ہے کہ یہ دوسرا قول مردود ہے،مجہول قائل کا یہ مردود قول تفسیر ابن ابی حاتم(4؍1325)اور درمنثور(3؍23) میں الفاظ کےتغیر کے ساتھ مذکور ہے۔ 2۔مذہب دوم کے دلائل درج ذیل ہیں: 1۔مجاہدتابعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ "آزر لم يكن بأبيه، ولكنه اسم صنم" (تفسیر ابن ابی حاتم 4؍1325،وتفسیر طبری7؍158) اس قول کی سند کا ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہے،اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔دیکھئے تہذیب التہذیب (ج8 ص 417تا419) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:"ولیث ضعیف"اور لیث(بن ابی سلیم) ضعیف ہے۔(فتح الباری ج2 ص 214 ح729) ضعف کی وجہ اس کاآخری عمر میں اختلاط ہے۔دیکھئے تقریب التہذیب(5685) لیث مذکور مدلس بھی ہے۔ دیکھئے کتاب"مشاهير علماء الأمصار" لابن حبان(ص 146 ارقم:1153) لہذا یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ومردود ہے۔ایک دوسری سند میں ابن ابی نجیح مدلس راوی ہیں، لہذا وہ سند بھی ضعیف ہے۔