کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 121
بذات خود متکلم فیہ ہیں۔حافظ دارقطنی نے ان کے بارے میں فرمایا: "ثقة، يخطئ كثيرا ويتكل على حفظه"(سوالات حمزۃ بن یوسف السہمی للدارقطنی :116)
اورفرمایا: "يخطئ فِي الإسناد والمتن، حدث بالمسند بمصر حفظا، ينظر فِي كتب الناس ويحدِّث من حفظه، ولم تكن معه كتب، فأخطأ فِي أحاديث كثيرة، يتكلمون فيه جرحه ابوعبدالرحمن النسائي" (سوالات الحاکم للدارقطنی:23)
ابو احمد الحاکم سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: "يخطئ فِي الإسناد والمتن"(دیکھئے لسان المیزان 1؍237)
بزارکو خطیب بغدادی،ابوعوانہ صاحب المسند ،وغیرہما نے ثقہ وصدوق قراردیاہے۔
بزار کی معلول روایت کے مقابلے میں بیہقی رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انھوں نےفرمایا:
"إِنَّ للهِ عَزَّ وَجَلَّ مَلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ سِوَى الْحَفَظَةِ يَكْتُبُونَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ عَرْجَةٌ فِي الْأَرْضِ لَا يَقْدِرُ فِيهَا عَلَى الْأَعْوَانِ فَلْيَصِحْ، فَلْيَقُلْ: عِبَادَ اللهِ، أَغِيثُونَا أَوْ أَعِينُونَا رَحِمَكُمُ اللهُ، فَإِنَّهُ سَيُعَانُ"
(شعب الایمان 6؍128 ح 7697 وسندہ حسن موقوف،1؍183ح167)
صحابی کے اس قول میں زندہ فرشتوں کو پکارنے کاجواز ہے لہذا یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوا۔اس قول میں مردہ روحوں کو پکارنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہذا اسے مافوق الاسباب پکارنےکی دلیل بنا لیناغلط ہے۔
لطیفہ: مسند البزار اور بیہقی رحمہ اللہ والی روایت کاایک راوی اسامہ بن زید اللیثی ہیں جو قول راجح میں حسن الحدیث ہیں۔یہ راوی اگر حنفیوں کے مخالف کسی حدیث میں آجائے تو یہ لوگ فوراً اس پر جرح کردیتے ہیں،مثلاً دیکھئےآثار السنن للنیموی(باب ماجاء فی التغلیس ح 213 عن ابی مسعود الانصاری رضی اللہ عنہ حاشیہ)
کیاانصاف اسی کا نام ہے؟(25 ذوالقعدہ 1426ھ) (الحدیث:23)