کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 118
کوئی مسلم نہیں کہتا۔‘‘ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ 22؍249)
معلوم ہوا کہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک کوئی مسلمان بھی وجوب تقلید فلان کا قائل نہیں ہے۔
دلیل چہارم:جو شخص(تقلید کرتے ہوئے)کسی ایک امام کے لیے تعصب کرتا ہے (جیسا کہ آل دیوبند وغیرہ کاطریقۂ کار ہے ) تو ایسے شخص کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ :"كالرافضي ۔۔۔۔۔۔ جاهلًا ظالماً"قراردیتے ہیں۔دیکھئے مجموع فتاویٰ(22؍252) یعنی ان کے نزدیک ایسا شخص جاہل،ظالم اوررافضیوں کی طرح ہے۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مقلد نہیں تھے بلکہ مجتہد اور متبع کتاب وسنت تھے۔والحمدللہ۔
2۔حافظ ا بن القیم رحمہ اللہ نے ایک مستقل کتاب’’اعلام الموقعین ‘‘ تقلید کے رد میں لکھی ہے۔اس کتاب کانام جلال الدین سیوطی(متوفی 911ھ)’’ ذم الـتـقـلـيـد ‘‘بتاتے ہیں۔(دیکھئے الرد علی من اخلد الی الارض ص 166)
دلیل پنجم: حافظ ابن قیم الجوزیہ تقلید کے بارے میں فرماتے ہیں:
"وإنما حدثت هذه البدعة في القرن الرابع المذموم على لسانه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم"
اور یہ بدعت تو چوتھی صدی(ہجری) میں پیدا ہوئی ،جس کی مذمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (مبارک) زبان سے بیان فرمائی ہے۔(اعلام الموقعین 2؍208)
معلوم ہوا کہ مروجہ تقلید امام ابن القیم رحمہ اللہ کے نزدیک بدعت مذمومہ ہے، لہذا ثابت ہوا کہ وہ بذات خود حنبلی مقلد ہرگز نہیں تھے بلکہ مجتہد ومتبع کتاب وسنت تھے۔والحمدللہ۔
فائدہ: دیوبندیوں اور بریلویوں کے بزرگ ملا علی قاری حنفی(متوفی 1014ھ) نے لکھاہے:
"وَمَنْ طَالَعَ شَرْحَ مَنَازِلِ السَّائِرِينَ، تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُمَا كَانَا مِنْ أَكَابِرِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالجَمَاعَةِ، وَمِنْ أَوْلِيَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ"
’’اور جو شخص شرح منازل السائرین کا مطالعہ کرے تو اس کے لیے واضح ہوجائے گا کہ وہ دونوں(ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن القیم رحمہ اللہ ) اہل سنت والجماعت کے اکابر اوراس اُمت کے اولیاء میں سے تھے۔