کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 117
"ولقد أنكر بعض المقلدين على شيخ الإسلام في تدريسه بمدرسة ابن الحنبلي وهي وقف على الحنابلة ، والمجتهد ليس منهم ، فقال : إنما أتناول ما أتناوله منها على معرفتي بمذهب (أحمد) , لا على تقليدي له" ’’اور بعض مقلدین نے شیخ الاسلام(ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) پر اعتراض کیا کہ وہ مدرسہ ابن الحنبلی میں پڑھاتے ہیں حالانکہ یہ مدرسہ حنابلہ پر وقف ہے اور مجتہدان(حنبلیوں ومقلدین) میں نہیں ہوتا،انھوں نے فرمایا:میں اسے احمد(بن حنبل ) کے مذہب کی معرفت پر استعمال کرتا ہوں،میں اس(احمد) کی تقلید نہیں کرتا۔‘‘ (اعلام الموقعین 2؍241،242 مطبوعہ دارالجیل بیروت لبنان،الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی ص 166) دلیل دوم: حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں: "الشيخ ، الإمام ، العلامة ، الحافظ ، الناقد ، الفقيه ، المجتهد ، المفسر البارع ، شيخ الإسلام ، علَم الزهاد ، نادرة العصر" (تذکرۃ الحفاظ 4؍1496ت1175) معلوم ہواکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک مجتہد تھے۔یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ مجتہد تقلید نہیں کرتا۔طحاوی حنفی نے:"طبقة المجتهدين في الشرع كالأئمة الأربعة وامثالہم " کے بارے میں لکھا ہے کہ"وهم غير مقلدين"اور وہ غیر مقلد ہیں۔(حاشیۃ الطحاوی علی الدرالمختار1؍51) ماسٹر محمد امین اکاڑوی دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں: ’’جو شخص خود مجتہد ہوگا وہ خود قواعد شرعیہ سے مسئلہ تلاش کرکے کتاب وسنت پر عمل کرے گا۔‘‘(تحقیق مسئلہ تقلید ص5مجموعہ رسائل 1؍21مطبوعہ اکتوبر1991ء گوجرانوالہ) دلیل سوم: کچھ لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ عوام پر فلاں(مثلاً امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) یا فلاں کی تقلید واجب ہے۔ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وأما أن يقول قائل: إنه يجب على العامة تقليد فلان أو فلان فهذا لا يقوله مسلم" ’’ اور اگر کوئی کہنے والا کہے کہ عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے،تو ایسی بات