کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 110
أهل الكلام وأصحاب الأهواء والآراء دون ما تضمنته من الأحكام وأبواب الحلال والحرام فإن ذلك قد جرى بين الصحابة فمن بعدهم من العلماء وذلك فيما يكون الغرض منه والباعث عليه ظهور الحق ليتبع دون الغلبة والتعجيز" ’’اورکہا گیا ہے کہ اس حدیث(لاتماروافی القرآن الخ) سےمراد،تقدیر وغیرہ کے مسائل میں آیات کریمہ میں ،اہلِ کلام،اہل بدعت اور اہل رائے کی طرح جگھڑا کرناہے۔اس سے احکام اور حلال وحرام والے مباحث مراد نہیں ہیں کیونکہ یہ بحثیں(اور مناظرے) تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد والے علماء کے درمیان ہوئے ہیں،ان کی غرض وغایت یہ تھی کہ حق واضح ہوجائے تا کہ حق کی اتباع کی جائے،ان سے مخالف پرمجرد غلبہ یا عاجز کرنا مراد نہیں تھا۔‘‘واللہ اعلم۔(النہایۃ 4؍322) "وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ " ’’اور ان سے احسن طریقے سے بحث وجدال کیجئے۔‘‘(النحل:125) جائز مناظرے کے جوازکی دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: "بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً.....الخ " ’’مجھ سے(دین لے کر) لوگوں تک پہنچا دو چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘(صحیح البخاری :3461) سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایک ایک کافر سے مناظرہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔(سورۃ البقرۃ:258) مستدرک الحاکم(2؍593،594 ح4157) میں نجران کے عیسائیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث ومباحثہ مذکور ہے۔(وصححہ الحاکم علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی) صحیح بخاری میں ایک فقہی مسئلے پر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کا مناظرہ موجودہے۔(345،346) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا خوارج سے مناظرہ کرنا ثابت ہے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی 8،179 وسندہ حسن) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "فكل من لم يناظر أهل الإلحاد والبدع مناظرة تقطع دابرهم لم يكن أعطى الإسلام حقه، ولا وفَّى بموجب العلم والإيمان،