کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 109
دے اگرچہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الادب ،باب فی حسن خلق :4800 وسندہ حسن) جب سے یہ حدیث پڑھی ہے ذہن بہت اُلجھ گیا،میرے سارے کلاس فیلو حنفی ہیں ان سے بڑی گرماگرم بحثیں ہوتی ہیں اور میں ہمیشہ قرآن وحدیث کے دلائل سے ان کو لاجواب کردیتا ہوں مگر جب سے میں نے یہ حدیث ان کو سنائی ہے وہ میرے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث تیرے جیسے بندے کے لیے کہی ہے۔کیوں کہ تو بحثیں بہت کرتا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ اگر ایک شخص شرک وبدعت کی تبلیغ کررہا ہےتو اس پر حق واضح کردینا چاہیے اور ظاہری بات ہے کہ بحث تو ہوگی ایک دو باتوں سے تو وہ مطمئن نہ ہوگا۔اور قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:"وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ " ’’اور ان سے احسن طریقے سے بحث وجدال کیجئے۔‘‘ اس لیے اگر ایک شخص قرآن وحدیث کو توڑ موڑ کر پیش کرتا ہے اور شریک وبدعت کی توثیق میں ان کی من مانی تاویلات کرتا ہے تو اس پر دلائل کے ذریعے سے بحث کرکے اتمام حجت کردینی چاہیے۔اور پھر علماء کا اختلافی مسائل پر بحث کرنا کس ضمن میں آتا ہے۔بس آپ ذرا مجھےسمجھائیں۔(حافظ عاطف منظور،فتح ٹاؤن اوکاڑہ) الجواب: لغت میں"المراء" کا مطلب ہے : ’’جھگڑا ،کٹ حجتی،بحث‘‘ (القاموس الوحید ص 1546) علامہ ابن الاثیر(متوفی 606ھ) لکھتے ہیں: "المراء: الجدال. والتماري والمماراة: المجادلة على مذهب الشكِّ والريبة" مراء جھگڑے کو کہتے ہیں اور تماری،مماراۃ کا معنی یہ ہے کہ شک وشبہ کی بنیاد پر جھگڑا کیاجائے۔(النہایۃ فی غریب الحدیث ج 4ص 322) معلوم ہوا کہ حدیث مذکور میں احکام واختلافی مسائل پر دعوت وتحقیق کے لیے بحث ومباحثہ مراد نہیں ہے،علامہ ابن اثیر مزید لکھتے ہیں:"وقيل إنما جاء هذا في الجدال والمراء في الآيات التي فيها ذكر القدر ونحوه من المعاني على مذهب