کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 105
ان روایات سےمعلوم ہوا کہ نظر لگنے کا برحق ہونا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔سورۂ یوسف کی آیت نمبر(67) سے بھی نظر کابرحق ہونا اشارتاً ثابت ہے۔
نظر کاایک علاج یہ بھی ہے کہ نظر لگانے والے کے وضو(یا غسل) کے بچے ہوئے پانی سے اسے نہلایاجائے جسےنظر لگی ہے۔دیکھئے موطا امام مالک (2؍938ح1810 وسندہ صحیح)یادرج ذیل دعا پڑھیں:
"أعوذُ بكلماتِ اللّٰه التامَّةِ ، مِن كُلِّ شيطانٍ وهامَّةٍ ، ومِن كُلِّ عَيْنٍ لامَّةٍ "
’’اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ اس کی پناہ چاہتا ہوں ہر ایک شیطان اور ہرنقصان پہنچانے والی نظر بد سے۔‘‘
(صحیح بخاری:3371) (12؍جنوری 2007ء) (الحدیث:36)
سوال: نظر لگنے کا مسئلہ دین کے لحاظ سے صحیح ہے یا غلط کچھ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ یہ نظر حق ہے اور نظر کے لگنے سے انسان قبر میں پہنچ جاتا ہے آپ براہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔(ایک سائل)
الجواب: اللہ کے حکم سےنظر لگنے کا مسئلہ صحیح وحق ہے۔
الصحیفہ الصحیحہ لہمام بن منبہ(متوفی 132ھ) (ح 130،صحیح بخاری:5740)وصحیح مسلم:2187)وغیرہ میں حدیث ہے کہ:
"العين حق "’’نظر(کالگنا) حق ہے۔‘‘
نیزد یکھئے موطا امام مالک رحمہ اللہ (2؍938 رقم:1810،وسندہ صحیح)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا سکھائی جس میں نظر بد سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے:
"أعوذُ بكلماتِ اللّٰه التامَّةِ ، مِن كُلِّ شيطانٍ وهامَّةٍ ، ومِن كُلِّ عَيْنٍ لامَّةٍ "
’’میں اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ اس کی پناہ چاہتا ہوں، ہر شیطان اور ہر زہریلے جانور سے،اور ہر ملامت والی آنکھ سے۔‘‘(صحیح بخاری:3371)
جو لوگ نظر لگنے کے منکر ہیں وہ حدیث کے منکر ہیں کیونکہ نظر کا مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور خیر القرون کے سنہری دور میں کسی ایک محدث یا امام سے اس کا انکار ثابت نہیں ہے۔(شہادت،جولائی 1999ء)