کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 102
اس کا ذکر نہیں کیا اور نہ اس کا ثقہ وصدوق یا موثق ہونا حدیث کے کسی قابل اعتماد عالم سے ثابت ہے،معلوم ہوا کہ یہ ایک مجہول الحال شاعر تھا۔ قصیدۂ بردہ میں غلو سے بھر پور اور کتاب وسنت کے خلاف اشعار موجود ہیں۔مثلاً: "الفصل العاشر في ذکر المناجاة وعرض الحاجات" میں لکھا ہوا ہے: "يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به سواك عند حلول الحادث العمم" ’’اے بزرگترین مخلوقات یا اے بہترین رسل بوقت نزول حادثہ ٔعظیم و عام کے آپ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی میں پناہ میں آؤں ۔صرف آپ ہی کا بھروسہ ہے۔‘‘ (عطر الوردہ فی شرح البردہ،ترجمہ ازذوالفقار علی دیوبندی ص 85) یہ کہنا کہ عظیم حادثوں میں صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی پناہ اور بھروسا ہے،قرآن مجید اور صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰه الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ"’’اور مدد نہیں مگر اللہ غالب حکمت والے کے پاس سے۔‘‘ (آل عمران :126،ترجمہ احمد رضا خان بریلوی ص 106) معلوم ہواکہ مافوق الاسباب مدد کرنا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفتِ خاصہ ہے، لہذا اس مدد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرنا غلط ہے۔ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے آدمی کے بارے میں ارشاد مبارک ہے جو کہتا ہے یا کہے گا: "يارسول اللّٰه أغثني"’’ یارسول اللہ ! میری مدد کریں۔‘‘ "لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا" ’’میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری:3073 وصحیح مسلم:1831) اس صحیح حدیث کی تائید سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 188 سے بھی ہوتی ہے ۔واضح رہے کہ صحیح حدیث بذات خود حجت ہے چاہے عقائد واحکام کا مسئلہ ہو یا فضائل ومناقب کا اور چاہے اس کی تائید قرآن مجید میں واضح طور پر موجودہویا نہ ہو،ہرحال میں صحیح حدیث حجت ہے۔والحمدللہ۔ فائدہ: قصیدۂ بردہ میں ایک شعر لکھا ہوا ہے کہ