کتاب: توحید کی آواز - صفحہ 46
حالانکہ وہ منہ میں آہی نہیں سکتا۔(پس اسی طرح) ان کافروں کی پکار سوائے بھٹکنے (صدا بصحرا) کے اور کچھ نہیں۔‘‘[1] یہ بات بیان کر کے مشرکین سے ذرا سوچنے کے لیے کہا گیا ہے۔وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ان کے معبودوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا اور نہ وہ کچھ پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں بلکہ وہ خود اللہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں، اس لیے ان سے کہا گیا کہ تم نے تو اللہ تعالیٰ کو، جو خالق اور قادر ہے اور اپنے ان شرکاء کو جو مخلوق اور بالکل بے بس ہیں یکساں اور برابر کر دیا۔بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ تم اللہ کو بھی پوجتے ہو اور ان شرکاء کو بھی پوجتے ہو، اللہ کو بھی پکارتے ہو اور ان کو بھی پکارتے ہو۔آخر عبادت اور پکار کے معاملے میں تم نے دونوں کو برابر کیسے کر دیا۔ ﴿أَفَمَنْ يَخْلُقُ كَمَنْ لَا يَخْلُقُ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴾ ’’کیا جو پیدا کرتا ہے، وہ پیدا نہ کرنے والے کی طرح ہے؟ تم لوگ سمجھتے کیوں نہیں؟‘‘[2] جب یہ سوال ان کے سامنے رکھا گیا تو وہ باکل بھونچکا رہ گئے۔ان کی ساری حجت اور بحث جاتی رہی۔وہ شرمندہ ہو کر چپ ہو رہے، پھر انھیں ایک غلط بات سجھائی دی۔وہ کہنے لگے: ’’دیکھو!ہمارے باپ دادا سارے انسانوں سے زیادہ عقل مند تھے۔لوگوں میں ان کی عقل مندی کا شہرہ تھا اور دور دور تک لوگ اس بات کو تسلیم کرتے تھے اور ان سب لوگوں کا دین وہی تھا جو ہمارا ہے، لہٰذا کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ دین باطل اور گمراہی والا دین ہو۔خود مسلمانوں کے باپ دادا بھی اسی دین پر تھے۔‘‘ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ لوگ ہدایت پر نہ تھے کیونکہ انھوں نے حق کا راستہ پہچانا نہ اس کو اختیار کیا جس کے نتیجے میں وہ گمراہ ہو گئے کیونکہ وہ کچھ سمجھتے نہ تھے۔یہ مطلب کبھی اشاروں کنایوں میں بیان کر دیا جاتا تھا اور کبھی کبھی کھلم کھلا بھی کہہ دیا جاتا تھا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ (69) فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ ﴾
[1] الرعد 14:13. [2] النحل 17:16.