کتاب: توحید کی آواز - صفحہ 45
مردہ ہیں، زندہ نہیں ہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘[1]
اور فرمایا:
﴿أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (191) وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ ﴾
’’کیا یہ ایسے لوگوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور نہ ان کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود اپنی ہی مدد آپ کر سکتے ہیں۔‘‘[2]
اور فرمایا:
﴿ وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا ﴾
’’اور ان لوگوں نے اللہ کے ماسوا ایسے لوگوں کو معبود بنا رکھا ہے جو کوئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے گئے ہیں جوخود اپنے لیے بھی نفع اور نقصان کے مالک نہیں۔نہ موت اور نہ زندگی اور نہ مرنے کے بعد زندہ کیے جانے کا اختیار رکھتے ہیں۔‘‘[3]
جب اللہ نے ان شرکاء کی بے بسی اور لاچاری بیان کر ڈالی اور بتا دیا کہ مشرکین کی کسی بھی گمان کردہ چیز پر وہ کوئی قدرت نہیں رکھتے تو معاً اس کا نتیجہ بھی بتا دیا کہ ان کو اپنی ضرورت کے لیے پکارنا اور ان سے کوئی امید رکھنا بالکل باطل اور فضول ہے، اس کا قطعًا کوئی فائدہ نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں چند نہایت دلچسپ مثالیں بھی بیان کیں۔ایک جگہ فرمایا:
﴿ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ﴾
’’اور یہ لوگ اللہ کے ماسوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کا قطعًا کوئی جواب نہیں دے سکتے مگر جیسے کوئی شخص پانی کی طرف اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلا دے کہ وہ پانی اس کے منہ میں آجائے،
[1] النحل 21،20:16.
[2] الأعراف 192،191:7.
[3] الفرقان 3:25.