کتاب: توحید کی آواز - صفحہ 43
1. یا تو تمھیں غیب معلوم ہو گیا ہو۔ 2. یا پھر پچھلے انبیاء نے کوئی کتاب چھوڑی ہو اور اس میں تمھیں یہ بات لکھی ہوئی مل گئی ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴾’’کیا ان کے پاس غیب ہے جسے وہ لکھتے ہیں۔‘‘[1] اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴾’’میرے پاس پہلے کی کوئی کتاب لاؤ، یا علمِ الٰہی کا کوئی بقیہ لاؤ، اگر تم لوگ سچے ہو۔‘‘[2] اور مزید فرمایا: ﴿ قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ﴾ ’’(اے پیغمبر!) ان سے کہو کہ کیا تمھارے پاس کچھ علم ہے؟ اگر ہے تو ہمارے سامنے لاؤ، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ تم لوگ محض گمان کی پیروی کرتے ہو اور اِدھر اُدھر کے اٹکل پچو لگاتے ہو۔‘‘[3] چونکہ یہ بات مشرکین بھی تسلیم کرتے تھے کہ انھیں نہ تو غیب کا کوئی علم ہے اور نہ انبیاء کی کتابوں میں سے کسی کتاب میں انھیں یہ بات ملی ہے، اس لیے انھوں نے نہایت صفائی سے کہا: ﴿ بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ﴾ ’’ بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو جس بات پر پایا ہے، اسی کی پیروی کر رہے ہیں۔‘‘[4] اور یہ: ﴿بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ ﴾ ’’ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک امت (طریقے) پر پایا ہے اور ہم بھی اُنھی کی ڈگر پر چل رہے ہیں۔‘‘[5] اس جواب سے جب مشرکین کی جہالت اور بے بسی کھل گئی تو ان سے کہا گیا کہ دیکھو: ﴿ إِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ’’تم لوگوں کو تو نہیں معلوم لیکن اللہ جانتا ہے۔‘‘[6]
[1] القلم 47:68. [2] الأحقاف 4:46. [3] الأنعام 148:6. [4] لقمان 21:31. [5] الزخرف 22:43. [6] النحل 74:16.