کتاب: توحید کی آواز - صفحہ 42
ہیں اور جو مراد مانگی جائے وہ پوری کرتے ہیں، بگڑی بناتے ہیں، مصیبتیں ٹالتے ہیں اور ایسا یا تو خود اللہ کے دیے ہوئے تصرف واختیار کے ماتحت کر لیتے ہیں یا اللہ سے سفارش کر کے کرا لیتے ہیں۔[1]
تو یہ تھا مشرکین کا شرک اور یہ تھی غیر اللہ کے لیے ان کی عبادت اور یہ تھا اللہ کے ماسوا کو معبود بنانا اور شریک ٹھہرانا اور یہ تھے انبیائے عظام، اولیائے کرام، بزرگان دین اور نیکوکار صالحین جن کو مشرکین نے معبود بنا رکھا تھا۔
اب نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو توحید کی دعوت لے کر اٹھے اور اللہ کے سوا ہر معبود کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا تو مشرکین پر یہ بات بہت گراں گزری اور انھیں یہ مطالبہ بہت بھاری اور غلط محسوس ہوا۔انھوں نے کہا:’’یہ کوئی سازش ہے جو اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ اور ہے۔‘‘
﴿ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (5) وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ (6) مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ ﴾
’’یہ کیا تُک ہے کہ اس نے سارے معبودوں کی جگہ ایک معبود بنا ڈالا۔یہ تو عجیب چیز ہے۔اور ان کے بڑوں کا ایک گروہ اٹھا کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹ جاؤ۔یقینا یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ہم نے تو ایسی بات کسی اور ملت میں سنی ہی نہیں، ہو نہ ہو یہ گھڑی ہوئی بات ہے۔‘‘[2]
اس کے بعد جب دعوت وتبلیغ کا کام مزید آگے بڑھا اور ادھر مشرکین بھی اپنے شرک کو بچانے، اسلام کی تبلیغ روکنے اور مسلمانوں کے دل و دماغ سے اسلام کا اثر دھونے کے لیے حجت وبحث کے میدان میں اتر پڑے تو ان پر مختلف پہلوؤں سے دلیل قائم کی گئی۔ان سے پوچھا گیا کہ آخر تمھیں یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی کہ اللہ نے اپنے مقرب اور مقبول بندوں کو اس دنیا میں تصرف کی قوت دے رکھی ہے اور وہ ضرورتیں پوری کرنے اور مصیبتیں ٹالنے پر قدرت رکھتے ہیں۔اس کی صرف دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں:
[1] تفسیر سورۃ یونس، آیت: 18، وسورۃ الزمر، آیت: 3، وسورۃ الرعد، آیت: 14، وسورۃ فاطر، آیت: 13، وسورۃ الأعراف، آیت 194، وغیرہ.
[2] صٓ 7-5:38.