کتاب: توحید کی آواز - صفحہ 41
پر کچھ مجاور اور درباری ہوا کرتے تھے۔مشرکین یہ چیزیں ان مجاوروں کو پیش کرتے اور وہ مجاور انھیں قبروں اور مورتیوں پر چڑھا دیتے تھے۔عام طور پر ان کے بغیر براہ راست کوئی چیز نہیں چڑھائی جاتی تھی۔[1] البتہ جانوروں اور چوپایوں کو چڑھانے کا طریقہ علیحدہ تھا اور اس کی بھی کئی شکلیں تھیں، چنانچہ وہ کبھی ایسا کرتے کہ ان اولیائے کرام اور بزرگانِ دین کی رضامندی کے لیے جانور کو ان کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے۔وہ جہاں چاہتا چرتا اور گھومتا پھرتا، کوئی اسے کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچاتا بلکہ اُسے تقدس کی نظر سے دیکھا جاتا اور کبھی ایسا کرتے کہ جانور کو ان ولیوں اور بزرگوں کے آستانے پرلے جا کر ذبح کر دیتے اور کبھی ایسا کرتے کہ آستانے کے بجائے گھر ہی پر ذبح کر لیتے لیکن کسی ولی یا بزرگ کے نام پر ذبح کرتے۔[2]
ان کاموں کے علاوہ مشرکین کا ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ سال میں ایک یا دو مرتبہ ان ولیوں اور بزرگوں کے آستانوں پر میلہ لگاتے۔اس کے لیے خاص تاریخوں میں ہر طرف سے لوگ اکٹھے ہوتے اور اوپر ان کی جو حرکتیں ذکر کی گئیں ہیں وہ سب کرتے، یعنی آستانوں کو چھو کر برکت حاصل کرتے، ان کا طواف کرتے، نذر نیاز پیش کرتے، چڑھاوے چڑھاتے، جانور قربان کرتے وغیرہ۔یہ سالانہ عرس یا میلہ ایسا اہم ہوتا کہ اس میں دور اور نزدیک سے چھوٹے بڑے ہر طرح کے لوگ حاضر ہو کر اپنی نیاز پیش کرتے اور اپنا مقصد حاصل ہونے کی امید رکھتے۔
یہ سارا کام مشرکین اس غرض سے کرتے تھے کہ ان اولیائے کرام اور بزرگانِ دین کا تقرب اور ان کی خوشنودی حاصل کرکے اُنھیں اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ بنائیں اور ان کا دامن پکڑ کر اللہ تک پہنچ جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ اولیائے کرام اور بزرگانِ دین انھیں اللہ کے قریب پہنچا دیں گے اور ان کی ضرورتوں کے لیے اللہ سے سفارش کر دیں گے، چنانچہ یہ لوگ ساری نذر نیاز پیش کرنے کے بعد ان ولیوں اور بزرگوں کو پکارتے:
’’اے بابا!میرا فلاں کام بن جائے اور فلاں مصیبت ٹل جائے۔‘‘ اور سمجھتے تھے کہ وہ ان کی باتیں سنتے
[1] الأنعام، آیت: 136 اور اس کی تفسیر.
[2] سورۃ المائدۃ، آیت: 103،3، وسورۃ الأنعام، آیت: 138-121، وصحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4623، وسیرت ابن ہشام:1؍ 90،89، والمنمّق، ص: 329،328.