کتاب: توحید کی آواز - صفحہ 40
مرتبہ و مقام ہے اور چونکہ اللہ نے ان کو یہ تصرف واختیار دے رکھا ہے، اس لیے وہ بندوں کی ضرورتیں غیبی طریقے سے پوری کر دیتے ہیں، چنانچہ بعض مصیبتیں دور کر دیتے ہیں، بعض بلائیں ٹال دیتے ہیں اور جس سے خوش ہو جاتے ہیں، اُسے اللہ کا مقرب بنا دیتے ہیں اور اللہ سے اس کی سِفارش کر دیتے ہیں۔‘‘
مشرکین نے اپنے ان فاسد خیالات کی بنا پر ان انبیائے عِظام، اولیائے کرام، بزرگانِ دین اور نیکو کار لوگوں کو اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ بنایا اور ایسے ایسے اعمال ایجاد کیے، جن کے ذریعے سے ان لوگوں کا قرب اور ان کی رضا مندی حاصل ہو سکے، چنانچہ وہ مشرکین پہلے ان اعمال کو بجا لاتے، پھر عاجزی کے ساتھ گڑگڑا کر ان ہستیوں سے فریاد کرتے اور کہتے:
’’ہماری ضرورت پوری کردو، ہماری مصیبت ٹال دو اور ہمارا خطرہ دور کردو۔‘‘
اب رہا یہ سوال کہ وہ کیا اعمال تھے جنھیں مشرکین نے ان ہستیوں کی رضامندی اور تقرب کے لیے ایجاد کیا تھا تو وہ اعمال یہ تھے کہ انھوں نے ان انبیائے کرام، اولیاء اور بزرگانِ دین کے نام سے بعض مخصوص جگہوں پر آستانے بنا کر وہاں ان کی اصلی یا خیالی تصویریں یا مورتیاں سجا رکھی تھیں اور کہیں کہیں ایسا بھی ہوا کہ ان کے خیال میں بعض اولیائے کرام یا بزرگان دین کی قبریں مل گئیں تو مورتی تراشنے کے بجائے انھی قبروں پر آستانے بنا دیے۔[1] اس کے بعد یہ لوگ ان آستانوں پر جاتے اور مورتیوں یا قبروں کو چھو کر ان سے برکت حاصل کرتے، ان کے گرد چکر لگاتے، تعظیم کے طور پر ان کے سامنے کھڑے ہوتے نذرنیاز پیش کرتے، چڑھاوے چڑھاتے اور ان طریقوں سے ان کی قربت اور ان کا فضل چاہتے، نیز نذر نیاز اور چڑھاوے کے طور پر یہ لوگ اپنی کوئی بھی چیز پیش کر دیتے تھے۔کھیتی سے حاصل ہونے والے غلے، کھانے پینے کی چیزیں، جانور، چوپائے، سونا چاندی، مال واسباب غرض جس سے جو ہو سکتا تھا، نذر کر دیتا تھا۔
کھیتی، غلے اور کھانے پینے کی چیزیں، سونا چاندی اور مال اسباب چڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ ان آستانوں
[1] سیرت ابن ہشام: 1؍83.