کتاب: توحید کی آواز - صفحہ 28
آسمانی الٰہ جسے وہ ’’ماسوا‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، کے علاوہ تمام ہستیاں ختم ہو جاتی ہیں اور اس میں دیوتاؤں کی ہستیاں بھی شامل ہیں۔لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی گئی کہ جب تک پوری طرح معرفت الٰہی نہ ہو جائے، دیوتاؤں کی پرستش کے بغیر چارہ نہیں اور ان کی پرستش کا جو نظام قائم ہوگیا ہے اسے چھیڑنا نہیں چاہیے۔
اس طرح توحیدی اشراکی تصور کا مخلوط مزاج پیدا ہوگیا جو بیک وقت فکر و نظر کا توحیدی تقاضا بھی پورا کرنا چاہتا تھا اور ساتھ ہی بت پرستی کا نظام عمل بھی سنبھالے رکھنا چاہتا تھا۔ایک وقت آیا کہ یہی ان کا بنیادی عقیدہ بن گیا، مثلاً: نیمبارک اور اس کا شاگرد سری نواس، ’’برہم سوتر‘‘[1] کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگرچہ برہما یا کرشن کی طرح کوئی نہیں مگر اس سے ظہور میں آئی ہوئی دوسری قوتیں بھی ہیں جو اس کے ساتھ اپنا وجود رکھتی ہیں اور اس کی طرح کارفرمائی میں شریک ہیں، چنانچہ کرشن کے بائیں طرف رادھا ہے، یہ بخشش و عطا کرنے والی ہستی ہے، تمام نتائج و ثمرات بخشنے والی ہے، ہمیں چاہیے کہ برہما کے ساتھ رادھا کی بھی پرستش کریں۔‘‘[2]
یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ سامی مذاہب[3] میں جس برگزیدہ مخلوق کو ملائکہ (فرشتے) کہا جاتا ہے اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق نظام کائنات میں خدمت سرانجام دیتے ہیں انھیں آریائی مذاہب[4] میں ’’دیو‘‘ اور ’’یزتا‘‘ وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یونانیوں کا ’’تھیوس‘‘ (Theos)، رومیوں کا ’’ڈے یوس‘‘ (Deus)، پارسیوں کا ’’یزتا‘‘ (یزدان) اور سنسکرت میں ’’دیو‘‘ سب انھی معنوں میں مستعمل ہیں۔
سامی مذاہب میں ان کی حیثیت یہ ہے کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہیں اور اللہ نے ان کی جو ذمہ داریاں لگائی ہیں وہ انھیں پورا کر رہی ہیں لیکن آریائی تصور میں ان کے پاس تصرف و تدبیر کائنات کا اختیار ہے اور یہ الٰہ کی طرح مستقل طاقت والی ہستیاں ہیں۔
لیکن جب توحید کا تصور ان میں پروان چڑھا تو انھیں مستقل اختیارات کا مالک سمجھنے کے لیے آسمانی الٰہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور تقرب کا ذریعہ قرار دے دیا گیا، یعنی اگرچہ وہ خود الٰہ نہیں لیکن الٰہ تک پہنچنے کے لیے ان کی پرستش ضروری ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ایک پرستار کی پوجا ہوگی تو معبود حقیقی کے لیے مگر انھی کے
[1] ہندوؤں کا کلمہ.
[2] ویدانت پاری جات، سوربھ: 3؍25.
[3] وہ مذاہب جو عربوں، یہودیوں اور آشوریوں میں پروان چڑھے۔یہ تمام آسمانی ہدایات پر یقین رکھتے ہیں.
[4] وہ مذاہب جن کی ابتدا آریائی قوم میں ہوئی۔آریائی ان اقوام کو کہا جاتا ہے جو بہت طاقتور تھیں۔ان میں پیغمبروں کا تصور موجود نہیں.