کتاب: توحید کی آواز - صفحہ 27
مطلق کو شخصیت کا روپ دے دیا اور پھر اس مشخص ذات کی صفات بیان کی گئیں، اس طرح وحدۃ الوجودی[1] عقیدے نے ذات مشخص و متصف (سارگون) کا تصور بھی پیدا کر دیا۔اور پھر اس میں منفی اور مثبت صفات کو تسلیم کیا، مثلاً: اس کی ذات اکیلی ہے، اس ایک کے علاوہ دوسرا نہیں، وہ بے مثال ہے، وغیرہ۔لیکن توحیدی تصور کی یہ بلندی بھی شرک اور کئی وجودوں کی ملاوٹ سے خالی نہ رہی اور توحید فی الذات کے ساتھ توحید فی الصفات کا واضح عقیدہ پیدا نہ ہوسکا۔زمانہ حال کے ایک قابل ہندو مصنف کے لفظوں میں دراصل شرک اور کئی وجودوں کا تصور (Polytheistic) ہندوستانی دل و دماغ میں اس قدر پکا ہوچکا تھا کہ اب اسے ایک دم اکھاڑ پھینکنا آسان نہ تھا، اس لیے ایک اکلوتی ہستی کی جلوہ گری کے بعد بھی دوسرے خداؤں کا تصور ختم نہیں ہوا، البتہ ان کے عقیدے میں اس یگانہ ہستی کا قبضہ و اقتدار ان سب پر چھا گیا اور وہ سب اس کی ماتحتی میں آگئے۔[2] گویا ان کے نزدیک ان کے خود ساختہ معبود اس ذات عالی جسے وہ ’’برہمان‘‘ کہتے ہیں، کے خوف سے اپنی اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں اور یہ برہمان اس آسمانی رب کے سوا کچھ نہیں، عوام کا براہ راست آسمانی خدا سے کوئی سروکار نہیں، اس لیے وہ ان تراشیدہ خداؤں ہی کی پوجا کے پابند ہیں جبکہ خواص اس آسمانی ذات کی پرستش کا حق رکھتے ہیں۔ معروف کتاب ’’انڈین فلاسفی‘‘ کے مصنف جو ایک ہندو ہیں، مزید لکھتے ہیں: ’’یہ دراصل ایک سمجھوتہ تھا جو چند خاص دماغوں کے فلسفیانہ تصور نے انسانی بھیڑ کے وہم پرست ولولوں کے ساتھ کر لیا تھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواص اور عوام کی فکری موافقت کی ایک آب و ہوا پیدا ہوگئی اور وہ برابر قائم رہی۔‘‘ اس کے بعد اگرچہ ویدانت کے فلسفے نے بڑی وسعتیں پیدا کیں لیکن خواص کے لیے توحید اور عوام کے لیے متعدد خداؤں کا عقیدہ اور تصور بدستور قائم رہا، زائل نہ ہوسکا بلکہ اور زیادہ وسیع اور مضبوط ہوگیا۔یہ بات عام طور پر تسلیم کر لی گئی کہ خدا شناسی کا طلبگار جب معرفت الٰہی کی منزلیں طے کر لیتا ہے تو پھر
[1] تفصیل کے لیے دیکھیے، ص: 148-135. [2] انڈین فلاسفی: 1؍144.