کتاب: توحید کی آواز - صفحہ 145
روم سے فلسفہ کی کتابیں منگوا کر ان کا عربی ترجمہ کروایا تو یہ گمراہ فرقے ان کتابوں پر ٹوٹ پڑے اور قرآن و سنت کو چھوڑ کر ان کے ذریعے سے پیدا ہونے والے کلامی مباحث میں اس قدر الجھے کہ ان کی گمراہی کے اندھیرے اور زیادہ مہیب اور گہرے ہوگئے۔
اختلافات کی یہ خلیج اس وقت اور زیادہ وسیع ہوگئی جب بغداد میں بنی بویہ کی حکومت قائم ہوئی۔یہ 334 ہجری سے 437 ہجری تک رہی۔انھوں نے شیعہ مذہب کو ترویج دی اور ابن سبا کے نظریات کو سرکاری سرپرستی میں پھیلانا شروع کردیا حتی کہ مساجد کے دروازوں پر سیدنا معاویہ اور دیگر صحابہ پر لعنت کے جملے لکھوا دیے۔اس سے بغداد میں شیعہ سنی فساد پھوٹ پڑے۔ادھر افریقیہ میں فاطمیوں نے اسماعیلی عقائد کو سرکاری سرپرستی میں پھیلانا شروع کر دیا۔جب مصر میں ان کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہوگیا تو انھوں نے شام، کوفہ، بصرہ، عراق، خراسان، حجاز، یمن اور بحرین پر بھی نظریاتی حملے کیے اور رافضیت کو خوب پھیلایا۔جبکہ عراق اور خراسان وغیرہ میں معتزلہ نے اپنے مذہب کی خوب تشہیر کی۔
ان فتنوں نے توحید کا صحیح عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔مسلمان ممالک میں خانہ جنگی کا وہ بازار گرم ہوا جو بیان کے قابل نہیں۔توحید خالص پر قائم رہنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ہر طرف گمراہی کے آثار نمایاں تھے۔کہیں قدریہ کا فتنہ تھا، کہیں جہمیہ کی گمراہی اور کہیں معتزلہ اور کرامیہ کے فلسفیانہ مباحث۔ان میں الجھی ہوئی امت محمدیہ اپنے اصل مأخذ قرآن و سنت سے دور ہوتی گئی۔بت شکن قوم اب صنم پرستی کی طرف بڑھ رہی تھی۔اس اثنا میں ابوالحسن[1] اشعری نے معتزلہ کا عقیدہ ترک کرنے کا اعلان کر دیا۔یہ معتزلہ کے امام شمار ہوتے تھے۔معتزلہ سے ان کی
[1] ابوالحسن اشعری کا نام علی بن اسماعیل ہے۔ان کا شجرہ نسب چونکہ صحابی رسول ابوموسیٰ اشعری تک پہنچتا ہے، اس لیے انھیں اشعری کہتے ہیں۔چالیس سال کی عمر تک آپ مشہور معتزلی بزرگ ابوعلی الجبائی کے پیروکار رہے اور ان سے فلسفہ اور علم کلام سیکھا۔کہا جاتا ہے عقیدے کے اعتبار سے ان پر تین دور گزرے ہیں۔سب سے پہلے وہ معتزلی رہے لیکن پھر خلق قرآن وغیرہ کے مسئلے پر معتزلہ سے اختلاف ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا۔اور ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی جسے ان کی طرف نسبت کرتے ہوئے اشاعرہ کہا جاتا ہے۔اس مسلک نے معتزلہ کے مقابلے میں خوب ترویج پائی۔اور آخری دور میں انھوں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب کی طرف رجوع کر لیا تھا جس کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب ’’الإبانۃ عن أصول الدیانۃ‘‘ میں کیا ہے۔اور اپنی دوسری کتاب ’’مقالات الإسلامیین و اختلاف المصلین‘‘ میں واضح لکھا: ’’میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب پر ہوں۔‘‘.