کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 9
مُعْتَمِّیْنَ۔ وَلاَ یَزَالُوْنَ یُصَلُّوْنَ عَلیٰ اَصْحَابِ الْعَمَائِمِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ} (۱)
’’اے میرے بیٹے ! عمامہ (پگڑی) کو محبوب رکھو۔ اے بیٹے !عمامہ باندھ تمہاری جلالت و قدر، عزّت و شرف اور تعظیم و توقیر ہوگی اور شیطان تمہیں دیکھتے ہی بھاگ جائے گا۔ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے عمامہ (پگڑی) باند ھ کر پڑھی گئی ایک نماز بغیرعمامے کے پڑھی گئی پچّیس (۲۵) نمازوں کے برابر ہوتی ہے اور عمامہ باندھ کر پڑھی گئی،ایک نمازِ جمعہ بغیر عمامہ پڑھی گئی جمعہ کی ستّر نمازوں کے برابر ہے۔ بے شک فرشتے عمامہ باندھ کر جمعہ میں حاضر ہوتے ہیں، اور غروبِ آفتاب تک دستار وعمامہ والوں کے لئے رحمت کی دُعائیں کرتے رہتے ہیں ‘‘۔
امام سیوطی رحمہ‘ اﷲ نے اس روایت کو تاریخ ابنِ عساکر اور الفردوس دیلمی کی طرف منسوب کیا ہے۔
اس کی استنادی حیثیّت:اس حدیث کی استنادی حیثیّت معلوم کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ محدِّثین کرام نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے:
امام سیوطیؒ نے اسے ’’ ذیل الاحادیث الموضوعۃ‘‘ کے صفحہ۰ ۱۱ پر نقل کیا ہے۔ اور اس کے موضوع یا من گھڑت ہونے کے حکم کو برقرار رکھا ہے۔ اسی طرح (تنزیہ الشریعہ میں ) ابنِ عراق نے بھی ان کی متا بعت کی ہے۔ اور اسے من گھڑت روایات میں شمار کرنے کے باوجود امام سیوطی ؒ سے ذھول ہوا۔ تو ابن ِ عساکر کے حوالہ سے اسے الجامع الصغیر میں بھی نقل کردیا۔ اور فتح القدیر شرح الجامع الصغیرمیں علّامہ مناوی ؒ نے امام سیوطیؒ کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حافظ ابنِ حجر ؒ نے اس حدیث کو موضوع یعنی من گھڑت کہا ہے۔ اور پھر المقاصد صفحہ ۱۲۴ پر علّامہ سخاوی ؒ نے بھی حافظ ابنِ حجر ؒ کا یہ فیصلہ نقل کیا ہے، اور اسے پسند کیا ہے۔ اور خود امام سیوطی نے ذیل الاحادیث الموضوعہ نامی اپنی کتاب میں ابنِ حجر ؒ سے اس حدیث کی یہ حیثیّت نقل کی ہے۔
اور ماضی قریب کے معروف حنفی محدّث ملّا علی قاری نے من گھڑت احادیث پر مشتمل اپنی کتاب ’’ الموضوعات ‘‘ (صفحہ ۵۱) میں فقہائِ مالکیہ میں سے ابو الحسن علی بن محمد المصری الشاذلی سے ان کا اس حدیث کے بارے میں قول نقل کیا ہے۔ جس میں وہ فرماتے ہیں :