کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 7
بسم اللّٰه الرحمن الرحیم
نماز میں پگڑی یا ٹوپی سے سر کو ڈهانپنا
نماز کے لئے لباس کے ضمن میں کسی صحیح و صریح اور خاص حدیثِ رسول ﷺ سے، آئمہ اربعہ رحمہم اﷲ میں سے کسی امام سے اور فقہاء و محدّثین رحمہم اﷲ میں سے کسی فقیہہ یا محدّث سے یہ ثابت نہیں کہ مردوں کو نماز میں سر کا ڈھانپنا بھی شرط یا واجب یا ضروری قرار دیا گیا ہو۔
مگرہمارے یہاں اس سلسلہ میں بڑے تشدّد سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ننگے سر نماز پڑھ لے تو اسے پڑی خشم گین آنکھوں سے تاڑا جاتا ہے۔ جیسے کہ اس سے کوئی بہت ہی گھناؤ نا جُرم سر زد ہو گیا ہو، اور اس شخص کو بڑا بُرا سمجھا جاتا ہے۔ جیسے کہ اس نے کسی گناہ ِکبیرہ کا علانیہ ارتکاب کرلیا ہو۔ اور کئی ’’مہربان ‘‘
ازراہِ شفقت کوئی نہ کوئی بوسیدہ سی کھجور کے پتّوں کی بنی ہوئی یا پھر کوئی سوتی مگر تیل اور میل سے اٹی ہوئی ٹوپی اُٹھا کر اس کے سر پر رکھ دیتے ہیں۔ اور بعض حضرات شدّت ِاحساس میں اس حد تک مبتلا ہوجاتے ہیں کہ پاس کوئی رومال یا ٹوپی نہ ہو اور مسجد سے بھی کسی چیز کے میسّر نہ آنے پر قمیص کے بٹن کھول لیتے ہیں، اور کالر اُٹھا کر اسے گلے کی بجائے سر پر رکھ لیتے ہیں تاکہ سر ننگانہ رہے حالانکہ یہ تمام اندازِ’’سرپوشی‘‘شرعی اعتبار سے درست نہیں۔کیونکہ سر کو ڈھانپنے کے ضروری ہونے کی کوئی خاص دلیل صحیح نہیں ہے۔ البتہ اگر مطلق زینت اختیار کرنے سے پگڑی یا ٹوپی کی فضیلت اخذکی جائے تو وہ ایک دوسری بات ہے اور وہ بھی محض