کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 40
اس حدیث کو بھی اما م سیوطی الجامع الصغیر میں لائے ہیں اور اُسے صحیح و ضعیف میں الگ الگ کرنے والے محدّث مذکور نے اسے سخت ضعیف قرار دیتے ہوئے ضعیف الجامع میں درج کیا ہے۔
المختصر: یہ کہ علّامہ ابن قیم ؒ والی تحقیق کی رو سے صرف عمامہ و پگڑی باندھیں یا صرف ٹوپی پہنیں یا دونوں کو بیک وقت اوپر نیچے استعمال کریں ،ہر طرح جائز ہے۔ ممانعت نہیں اور مذکورہ موضوع ختم کرتے ہوئے یہ بھی کہتے جائیں کہ ، بخاری و مسلم کی ایک ذکر کردہ حدیث (الارواء ۱/۳۰۴) کی رو سے جمہور اہل علم کے نزدیک نماز میں کندھوں کے ننگے رکھنے کی ممانعت ونہی ، نہی تنز یہی ہے۔ تحریمی نہیں یعنی یعنی کندھوں کا ڈھانپا ہوا ہونا بہتر ہے فرض و واجب نہیں۔ اورالمغنی ابن قدامہ میں مذکور ہے کہ امام ابو حنیفہ، مالک اور شافعی رحمہم اﷲ کا یہی مسلک ہے۔ لیکن امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک کندھوں کا ڈھانپنا بھی ضروری ہے۔ البتہ اگر کپڑا چھوٹا ہو شرمگاہ یعنی مقاماتِ ستر کی سترپوشی کرے اور ننگے کندھوں سے نماز پڑھ لے (۵۴)
اب رہا معاملہ نماز میں مردوں کے سر ڈھانپنے کا تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اول تو دستار و عمامہ یا ٹوپی و پگڑی عام حالات میں بھی استعمال کریں۔ کہ یہ شعار مسلم ہے اور جب عام حالات میں اسے ترک کر رکھا ہے تو کم از کم نماز کے وقت تو اچھی سی ٹوپی پہن لیا کریں۔ کیونکہ یہ انسان کے لئے زینت ہے مگر ہمارے ممالک کی مساجد میں یا پھر ہمارے ہی لوگوں کی لائی ہوئی اور ان مساجد میں رکھی گئی ٹوپیاں ہر گز زینت نہیں ہوتیں۔
ان کی نسبت تو ننگے سر نماز پڑھ لینا ہی بہتا ہے۔ کیونکہ ننگے سر بھی نماز ہو جاتی ہے۔ سر کو ڈھانپنا محض زینت و آدابِ نماز کا ایک تقاضاہے کوئی فرض و واجب یا سنّتِ مؤکّدہ بھی نہیں ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی ننگے سر نماز پڑھ رہا ہوتو اس کے گلے پڑنا ، اس کے سر پر ٹوپی رکھنا یا اسے خشمگین نگاہوں سے گُھورنا ہر گز درست نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ بات کو سمجھنے کی توفیق سے نوازے (آمین)وَاللّٰهُ ا لْمُوَفِّقْ وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُہ‘
ابو عدنان محمد منیر قمر نواب الدین
ترجمان سپریم کورٹ،الخبر
و داعیہ متعاون،مرکز دعوت والارشاد،الخبر،الدمام،الظہران(سعودی عرب)