کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 39
الَّذِیْ یَرْ فَعُ النَّاسُ اِلَیْہِ اَعْیُنَہُمْ یَوْمَ الْقَیَامَۃِ ھٰکذَا} شہید چار ہیں۔ ایک وہ مومن آدمی جو بڑے عمدہ ایمان والا ہے۔ وہ میدانِ کار زار میں دشمن سے بر سرِ پیکار ہوا اور اﷲ (کی وحدانیت ) کی تصدیق کی۔ یہاں تک کہ جان دے دی۔ یہی وہ شہید ہے جسے قیامت کے دن اتنا عظیم و رفیع مرتبہ و مقام ملے گا کہ لوگ اس کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھیں گے؛ اور ترمذی میں یہ الفاظ بھی ہیں : {وَرَفَعَ رَأْسَہٗ حَتّٰی سَقَطَتْ قَلَنْسُوَتَہٗ} ’’اور (رفعت و بلندی بتانے کے لئے) انہوں نے اپنے سر کو اتنا اُٹھایا کہ سر سے ٹوپی گر گئی۔‘‘ حضرت عمرِ فاروق رضی اﷲ عنہ سے روایت بیان کرنے والے حضرت فضالہ بن عبید سے بیان کرنے والے راوی ابو یزید خولانی بیان کرتے ہیں : {فَمَا اَدْرِیْ اََقَلَنْسُوَۃُ عُمَرَ اَرَادَ اَمْ قَلَنْسُوَۃُ النَّبِیِّ ﷺ }(۵۱) ’’میں نہیں جانتا کہ حضرت فضالہ کی مراد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی ٹوپی کا گرنا تھا یا کہ نبی اکرم ﷺ کی۔‘‘ آگے دوسرے تین آدمیوں کاتذکرہ بھی ہے، امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو حسن غریب قرار دیا ہے (۵۲)۔ جب کہ شیخ ناصر الدین البانی نے امام سیوطی کی الجامع الصغیر کی جو صحیح و ضعیف ،دو قسموں میں تقسیم کی ہے۔ تو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے نہوں نے ضعیف الجامع (۲/۳/۲۵۹) میں ذکر کیا ہے۔ ایسے ہی ایک دوسری حدیث الرویانی اور ابنِ عساکر نے حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کی ہے، جس میں وہ بیان کرتے ہیں : {کَانَ ﷺ یَلْبَسُ الْقَلَانِسَ تَحْتَ الْعَمَائِمِ وَ بِغَیِْرِ الْعَمَائِمِ وَ بِغَیْرِ الْقَلَانِسِ وَکَانَ یَلْبَسُ الْقَلَانِسَ الْیَمَانِیَّۃَ }(۵۳) ’’نبی اکرم ﷺ عمامہ کے نیچے ٹوپی پہنتے تھے اور بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی۔ اور ٹوپی کے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ اور آپ ﷺ یمنی ٹوپیاں بھی پہنا کرتے تھے۔‘‘