کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 37
الذکر لوگوں کی نیّت کرکے عمومی الفاظ کے ساتھ سلام کہنا چاہیئے (۴۶) سلام کی فضیلت اور متعلقہ چند امور تو ہم نے محض موانع کا ذکر کرنے کی مناسبت سے ذکر کر دئیے ہیں، ورنہ سلام سے متعلقہ احکام و مسائل تو بہت زیادہ ہیں لیکن سرِدست وہ ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔ لہٰذا یہاں ہم ان سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ کبھی اﷲ تعالیٰ نے موقع بخشا اور توفیق سے نوازا تو ان مسائل کی تفصیل بھی پیش کردیں گے۔ اِن شآء اﷲ تعالیٰ (۴۷) ٹوپی و عمامہ یا کوئی ایک: یہاں ایک اور بات بھی آپ کے گوش گزار کردیں کہ بعض لوگ عام حالات میں تو کیا خاص دَورانِ نماز بھی عمامہ یا ٹوپی نہیں رکھتے بلکہ ایسے لوگوں کی کثرت ہو رہی ہے۔ جب کہ ادھر کچھ لوگ وہ ہیں جو بال کی کھال اتارنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔اور یہ پوچھتے ہیں کہ نیچے ٹوپی اور اس کے اوپر عمامہ یا پگڑی یا دونوں بیک وقت ضروری ہیں یا دونوں یعنی عمامہ و ٹوپی میں سے کوئی ایک چیز بھی کافی ہے؟ اور کیا نبی اکرم ﷺ یا صحابہ کرام نے کبھی بغیر عمامہ کے ٹوپی پہنی ہے یا نہیں ؟ اور عام لوگ تو عموماً صرف ٹوپی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔لیکن ان کا کہنا ہوتاہے کہ ٹوپی کے اُوپر لازم عمامہ باندھو، کیونکہ صرف ٹوپی پہننا مکروہ ہے۔ اور ان کا استدلال رُکانہ بن عبد یزید الہا شمی والی ابوداؤد و ترمذی اور بیہقی کی اس مرفوع حدیث سے ہو تا ہے، جس میں ہے: {اِنَّ فَرْقَ مَابَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْمُشْرِکِیْنَ الْعَمَائِمُ عَلٰی اَلْقْلَانِسِ } (۴۸) ’’ہمارے اور مشرکین کے مابین فرق یہ ہے کہ ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔‘‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نماز اور نماز سے باہر ہمیشہ یا کبھی صرف ٹوپی کا استعمال بلاشبہ جائز و مباح ہے۔ اس پر پگڑی باندھنا نہ فرض و واجب ہے نہ سنّتِ مؤکّدہ۔ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو حسن غریب اور اس کی سند کو لَیْسَ بِالْقَائِمِ قرار دیا ہے۔ اور محقِّق مشکوٰۃ شیخ البانی ؒ نے ان کی تصدیق کی ہے۔ اور ماہنامہ محدّث دہلی کی جلد ۱۰ شمارہ ۳ میں صادر شُدہ ایک فتویٰ کی رو سے یہ روایت ضعیف ہے۔ اور اگر اسے صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو ابن الملک و غیرہ شرّاحِ حدیث کے بیان کردہ