کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 36
نیکیاں (۴۳) الادب المفرد امام بخاری ؒ اور صحیح ابن حبان میں یہی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے بھی مروی ہے۔ جیسے جیسے کوئی سلام کے الفاظ میں اضافہ کرتا جائے ثواب اور نیکیوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ والی حدیث میں نیکیوں کا لفظ اور تعداد دونوں وارد ہوئے ہیں اور یہ تین کلمات تو صحیحین میں ثابت ہیں (۴۴)۔ جب کہ بعض اضافی کلمات کی تفصیل فتح الباری (۱۱/۳،۷،۳۶،۳۸) میں موجود ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ سلام کہنے کی کس قدر فضیلت و ثواب ہے جس سے ہمیں کسی حد تک کبھی محض اس لئے محروم ہونا پڑتا ہے کہ مسلمان کے اسلامی شعائر کو ترک کرنے کی وجہ سے ہم اسے پہچان نہیں پاتے۔ وہ شعائر جن میں سے ایک عمامہ یا ٹوپی بھی ہے۔ جہاں مسلم و کافر ملے جُلے بیٹھے ہوں : یہاں ایک مسئلہ ذکرکردینا مناسب لگتا ہے کہ اگر کہیں آپ دیکھتے ہیں کہ مسلم و کافر ملے جلے بیٹھے ہیں ،یا کام میں لگے ہوئے ہیں تو آپ کو مسلمانوں کی نیّت سے ضرور سلام کہہ لینا چاہیئے۔ کیونکہ اس کا ثبوت صحیح احادیث میں موجود ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی میں حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے: {اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مَرُّ عَلٰی مَجْلِسٍ فِیْہِ اِخْتِلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُشْرِکِیْنَ عَبَدَۃِ الْاَوْثَانِ وَالْیَھُوْدِ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سلّم }(۴۵) نبی اکرم ﷺ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بتوں کے پجاری اور یہودی سب ملے جلے بیٹھے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کو سلام کہا۔ عمومی لفظ کے ساتھ سلام کہنا مگر نیّت صرف مسلمانوں کی کرنا، اس کی صراحت تو امام نووی ؒ نے کی ہے اور یہ اس بناء پر کہ غیر مسلم کو سلام کرنے میں ابتداء کرنا جائز نہیں ہے (جیسا کہ حدیث ذکر کی جا چکی ہے) اور امام ابن العربی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر اہلِ سنّت و اہلِ بدعت ، عدل پسند اور ظالم یا محبّ اور مبغض بیٹھے ہوں تو بھی اوّل