کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 34
فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ، اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ } (۳۸) ’’تم اس وقت تک جنّت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبّت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جسے اپنا نے سے تم باہم ایک دوسرے سے محبّت کرنے لگو، آپس میں سلام کو عام کرو۔‘‘ اور بخاری و مسلم کی ایک متفق علیہ حدیث میں ابو عمارہ حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں : {اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ بِسَیْعٍ بِعِیَادَۃِ الْمَرِیْضِ، وَ اِتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَ تَشْمِیْتِ الْعَاطِسِ وَ نَصْرِالضَّعِیْفِ وَعَوْنِ الْمَظْلُوْمِ وَ اِفْشَائِ السَّلَامِ وَ اِبْرَائِ الْمُقْسِمِ} (۳۹) ’’نبی اکرم ﷺ نے ہمیں سات کاموں کا حکم فرمایا: ۱۔ بیمار کی عیادت و تیمارداری کا۔ ۲۔ جنازے کے پیچھے چلنے (یعنی جنازہ پڑھنے ) کا۔ ۳۔ چھینک مارنے (پر اَلْحَمْدُ ِللّٰهِ کہنے) والے کا (یَرْ حَمْکَ اللّٰهِ کہہ کر) جواب دینے کا۔ ۴۔ ضعیف و کمزور کی مدد کرنے کا۔ ۵۔ مظلوم کے ساتھ تعاون کرنے کا۔ ۶۔ سلام کو عام کرنے کا۔ ۷۔ اورقسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے کا۔ ‘‘ یعنی کسی سے جو کام کروانے کے لئے کوئی قسم کھائے وہ کام کردینا تاکہ اس کی قسم پوری ہو جائے۔ (۴۰) ایسے ہی الادب المفرد امام بخاری ، ترمذی ،ابن ماجہ، دارمی، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں ابو یوسف حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے، کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: {یَا اَیُّھَا النَّاسُ! اَفْشُوْا السَّلَاَم وَاَطْعِمُوْا الطَّعَامَ ، وَصِلُوْا الْاَرْحَامَ وَ صَلُّوْاوَالنَّاسُ نِیَامٌ} ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، اور (محتاجوں کو) کھانا کھلاؤ، اور صِلہ رحمی کرو، اور راتوں کو جب لوگ سوئے