کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 33
گویا نہ تو مسلمان کے چہرے پر اسلامی شناخت یعنی داڑھی ہوتی ہے اور نہ ہی سر پر ٹوپی یا عمامہ اور لباس بھی ایک جیسے ہوگئے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں تو سلام کے عام کرنے کے عمل میں بھی رکاوٹ آرہی ہے۔ جسے کوئی جانتا ہے اسے تو سلام کہہ لیتا ہے۔ لیکن جسے کوئی نہیں جانتا اسے سلام کہنے میں یہ امر مانع ہوتا ہے کہ یہ مسلمان بھی ہے یا نہیں ؟کیونکہ کسی کے ماتھے پر یہ لکھا ہوا نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے؟ اور کِسی قسم کا اسلامی شعار اس پر واضح نہیں ہوتا۔ اور اب اگر وہ غیر مسلم ہے اور اسے سلام کہہ دیں تو اس ارشادِ رسالت مآب ﷺ کی خلاف ورزی ہوگی، جو صحیح مسلم، ابو داؤد اور ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے، جس میں ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
{لَا تَبْدَ أُوْا اَلْیَھُوْدَ وَ لَا النَّصَاریٰ بِالسَّلَامِ} (۳۶)
’’کہ (غیر مسلم) یہود و نصاریٰ کو سلام کہنے میں پہل مت کرو۔‘‘
اور اگر اسے عدمِ پہچان کی وجہ سے سلام نہیں کہتا، حلانکہ وہ مسلمان ہے تو دوسرے ارشادِ رسالت مآب ﷺ کی نافرمانی ہوتی ہے جو کہ صحیح بخاری و مسلم، ابوداؤد، الادب المفرد، ابن حبّان اور ابو عوانہ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر و بن عاص رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے، جس میں بہتر ین اسلام کیا ہے؟ کے جواب میں ارشاد ہے:
{تُطْعِمِ الطَّعَامَ وَ تَقْرَأِ السَّلَامَ عَلٰی مَنْ عَرََفْتَ وَمَنْ لَّمْ تَعْرِفُہٗ} (۳۷)
’’کھانا کھلاؤ اور سلام کہو ‘چاہے تم کسی کو جانتے ہو یا نہیں پہچانتے ہو۔‘‘
یہ صورتِ حال مسلمانوں کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ جس میں عمامہ و ٹوپی کا عام حالات میں استعمال نہ کرنا بھی اہم رول ادا کر رہا ہے۔ اور داڑھی منڈوانا اور مغربی طرز کے لباس کا عام استعمال اس پر مستزاد ہے۔ اور یہ سب عوامل مل کر افشائے سلام کے عملِ خیر و مطلوب میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ جب کہ افشائے سلام یعنی ہر کس و ناکس کو سلام کہنے کا نبی اکرم ﷺ نے حکم فرمایا ہے، جیسا کہ الادب المفرد امام بخاری، صحیح مسلم، ابو داؤدا ور ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
{لَا تَدْ خُلُوا الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْ مِنُوْا وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوا، اَوَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیئٍ اِذَا