کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 32
اس کے علاوہ موصوف نے اس کتاب کے اسی مقام پر ننگے سر نماز کے جواز پر دلالت کرنے والی روایات میں سے ایک کو ضعیف اور دوسری کو سخت ضعیف بلکہ موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ ایک عجوبہ: علّامہ موصوف نے ہی اپنی دوسری کتاب سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ میں جہاں عمامہ کی فضیلت پر دلالت کرنے والی یکے بعد دیگرے تین من گھڑت روایات نقل کی ہیں۔ وہاں ان کے بعد ان کے بُرے اثرات بھی ذکر کئے ہیں۔ وہاں ایک بات یہ بھی لکھی ہے:’’ دستار و عمامہ یا ٹوپی و پگڑی پر اتنی شدّت کے ساتھ عمل کرنے والے لوگوں کی ایک بات انتہائی قابلِ تعجّب ہے کہ وہ داڑھی مونڈے یا منڈوانے کا گنا ہ تو مسلسل کرتے چلے جاتے ہیں ، اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو انہیں اپنے اس ارتکاب ِ گناہ کا کوئی شعور تک نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی وہ اس سے اپنی نماز میں کوئی کمی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ٹوپی یا پگڑی کے معاملہ میں سُستی ہر گز نہیں کرتے ،اس طرح ان لوگوں نے شریعت کے احکام کو الٹ کر رکھ دیا ہے کہ جو چیز اﷲ کی طرف سے حرام تھی اسے مباح کرلیا،اور جو مباح تھی اسے واجب یا قریب واجب کرلیا ہے ۔(۳۴) ان الفاظ سے موصوف کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی عمامہ و دستار واجب نہیں بلکہ نمازننگے سر بھی مباح و جائز ہے ۔ لیکن یہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ اور افضل و اولیٰ یہی ہے کہ ننگے سر نماز نہ پڑھی جائے۔ افشائِ سلام کا حکم و فضیلت اور موانع: اسی پر بس نہیں بلکہ موصوف نے اسی مقام پر اس بات کو بڑے زور دار طریقہ سے بیان کیا ہے کہ عمامہ و ٹوپی کی ضرورت جتنی نماز کے لئے ہے، نماز سے باہر اس کی اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ مسلمانوں کا شعار ہے جو انہیں غیر مسلموں سے امتیازی حیثیّت دیتا ہے۔ خصوصاً دَورِ حاضر میں جب کہ مومن و کافر سب کے لباس (اور وضع قطع) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں یہاں تک کہ اب تو یہ بھی مشکل ہوگیا ہے کہ مسلمان جانے پہچانے یا انجانے ہر طرح کے مسلمانوں میں دعاء سلام کو عام کرسکے (۳۵)