کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 31
{یَرْوِیْ عَنِ الثِّقَاتِ الْمَوْضُوْعَاتِ لَا یَحِلُّ کِتَابَۃَ حَدِیْثِہٖ اِلَّا عَلٰی جِھَۃِ التَعَجُّبِ} (۳۱)
’’یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت احادیث بیان کرتا ہے۔ اس کی مرویات کو لکھنا بھی جائز نہیں سوائے بر سبیل تعجُّب کے۔‘‘
یہ ہے اس حدیث کی حقیقت، اب بھلا ایسی حدیث سے استدلال کیسے روا ہوسکتا ہے۔
تمام المنّہ شیخ البانی ؒ: عرب علماء سے دوسرے مشہور و معروف عالم اور محدِّثِ کبیر شیخناصرالدین الالبانی ؒنے اپنی کتاب تمام المنّہ میں ننگے سر نماز پڑھنے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ چنانچہ موصوف اپنی اس کتاب کے صفحہ ۱۶۴ پر لکھتے ہیں کہ اس مسئلہ زیرِ بحث کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ کیونکہ یہ بات مسلّم و طے شُدہ ہے کہ مسلمان کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ نماز میں سب سے اکمل و احسن حیثیت وصورت میں داخل ہو کیونکہ معجم طبرانی اوسط، بیہقی اور معانی الآثار طحاوی میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی حدیث میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
{فَاِنَّ اللّٰهِ اَحَقُّ مَنْ تُزُیِّنَ لَہ‘ }(۳۲)
’’بے شک اﷲ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لئے زینت اختیار کی جائے۔‘‘
سلف صالحین کے عرف ِعام میں یہ اچھی صورت شمار نہیں کی گئی کہ ننگے سر رہنے اور ایسے ہی چلنے پھر نے اور اس طرح ہی عبادت گاہوں (مساجد) میں داخل ہونے کی عادت بنالی جائے۔ بلکہ یہ تو ایک اجنبی و مغربی عادت ہے جو بکثرت اسلامی ممالک میں اس وقت سے در آئی ہے، جب سے وہ ان ممالک میں (استعمارکی حیثیّت سے) داخل ہوئے، اور اپنے ساتھ کِتنی ہی فاسد و بد ترین عادات لائے۔ اور مسلمانوں نے ان کی نقل و پیروی شروع کردی، اس عادت اور ایسی ہی دیگر عاداتِ بد کو اپنانے کی وجہ سے مسلمان اپنا اسلامی تشخّص ہی کھو بیٹھے ہیں۔ جب کہ یہ ہنگامی صورتِ حال اس لائق نہیں کہ اسے اپنے گذشتہ اور ازدست رفتہ اسلامی عرف و تشخّص کی مخالفت کا ذریعہ بنا یا جائے۔ اور نہ ہی یہ عادت اس لائق ہے کہ اسے ننگے سر نماز ادا کرنے کے جواز کی دلیل بنا لیا جائے (۳۳)